پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ماﺅزے تنگ کے بیٹے کی لاش

datetime 14  جنوری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

’’جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کا ایک ہی بیٹا تھا کوریا کے ساتھ جنگ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی جنگ پر روانہ کیا‘ جب اس کی لاش واپس آئی تو یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیا ’’ جنگ میں میرا ہی بیٹا کام نہیںآیا‘ بے شمار والدین اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کر رہے ہیں پہلے ان کا غم ہے پھر میرا ‘میں پہلے ان کے آنسو پونچھ لوں‘‘
ماؤزے تنگ چینی مارکسی عسکری و سیاسی رہنما تھے‘انہوں نے چینی خانہ جنگی میں چینی کمیونسٹ جماعت کی قیادت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور یکم اکتوبر 1949ء کو بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی‘1954ء سے 1976ء تک چین کی کمیونسٹ جماعت کے چیئر مین رہے جبکہ 1954ء سے 1959ء تک عوامی جمہوریہ چین کی صدارت سنبھالی ‘ماؤجدید تاریخ کی مؤثر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ماؤزے تنگ 1893ء میں پیدا ہوئے اور1976ء میں اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن 83 برس میں وہ کچھ کر گئے کہ دنیا آج بھی ان کے گن گاتی ہے۔
ماؤزے تنگ نے لانگ مارچ کے ذریعے ہی چین میں کمیونسٹوں کو بچایا ‘لانگ مارچ کے دوران غیر معمولی تکا لیف اور صعوبتیں سہیں۔ ماؤزے تنگ چالاک و شاطر سیاست دان تھے۔ لانگ مارچ کے وقت وہ اپنی حکمت عملی اور مخالفین کے باہمی جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر اہم کمیونسٹ رہنما بننے میں کامیاب رہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی 1921ء میں قائم ہوئی تب چین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو منتانگ میں بھی خاصے کمیونسٹ موجود تھے۔ 1925ء میں جب کو منتانگ کے بانی سن یات سین چل بسے‘ تو کمیونسٹوں کا مخالف ‘جنرل چیانگ کائی شیک پارٹی کا سربراہ منتخب ہوا۔ کائی شیک نے سینکڑوں کمیونسٹوں کو پارٹی سے نکال دیا اور ان کیخلاف تشدد آمیز اقدامات کیے۔ فرار شدہ کمیونسٹ جنوبی چین میں واقع صوبہ جیانگ شئی میں اپنی جمہوریہ بنانے میں کامیاب رہے ۔ تب انہوں نے کائی شیک کی افواج پرہلہ بول دیا ۔کومنتانگ افواج تعداد اور اسلحے میں برتر تھیں چنانچہ وسط 1934ء تک انہوں نے کمیونسٹوں کوگھیر لیا۔ تب یہ لگنے لگا کہ کمیونسٹ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ اس زمانے میں کمیونسٹ فوج کا سربراہ چینی شاہی فوج کا سابق سردار جنرل زوڈی تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کمیونسٹ شمال کی سمت ہجرت کر جائیں تا کہ وہاں ازسر نو منظم ہو کر قوم پرستوں (کومنتانگ) کیخلاف صف آراء ہوں چنانچہ اکتوبر 1934ء میں قریباًایک لاکھ کمیونسٹ جیانگ شئی سے چل پڑے۔ یوں چینی لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں کمیونسٹ فوجوں کے تین مزید قافلے نکلے ۔ تلخ بات یہ ہے کہ ان کمیونسٹو ں نے تیس ہزار عورتوں ‘بچوں اور بوڑھوں کوجیانگ شئی ہی میں قوم پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

ان بھگوڑے کمیونسٹوں نے مغرب کی طرف رخ کیا تا کہ کومنتانگ افواج کے علاقوں سے نہ گزریں۔ وہ لمبا چکر کاٹتے ہوئے شمال کی طرف مڑے۔ ماؤزے تنگ کا دعویٰ ہے کہ کمیونسٹوں نے آٹھ ہزار میل طویل فاصلہ طے کیامگر جدید مؤرخین اسے زیادہ سے زیادہ چھ ہزار میل بتاتے ہیں۔ 1934ء میں ماؤزے تنگ ایک عام کمیونسٹ رہنما تھا لیکن لانگ مارچ کے دوران وہ دوسرے رہنماؤں کو آپس میں لڑو ا کر خود ترقی کرتا رہا۔ لہٰذا لانگ مارچ اختتام پذیر ہوا تو وہ کمیونسٹوں کا سب سے بڑا رہنما ء بن چکا تھا۔ اس دوران وہ خود دیگر کمیونسٹ رہنماؤں کی طرح پالکی‘بیل گاڑی یا گھوڑے پہ سوار رہا۔ پیدل چلنے ‘بھوک پیاس اور بیماریوں کی تمام صعوبتیں عام فوجیوں ہی نے برداشت کیں۔ کمیونسٹوں خصوصاً ماؤزے تنگ نے بعد ازاں اس لانگ مارچ کو اپنی زبردست فتح سے تعبیر کیا۔ لانگ مارچ کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ دعویٰ ہوا کہ راستے میں کومنتانگ افواج سے کئی جھڑپیں ہوئیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چیانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں کو فرار ہونے میں مدد دی۔ دراصل اسے یقین تھا کمیونسٹوں کو ایک جگہ سمیٹ دینے سے ‘ان سے نمٹنا آسان ہو گا مگر شمال میں کمیونسٹوں کو روس سے مدد مل گئی اور وہ پھر قوم پرستوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ لانگ مارچ حقیقتاً عام کمیونسٹ فوجیوں کے لیے ہی تباہ کن ثابت ہوا۔ لاکھوں میں سے چند ہزار ہی بچ پائے‘ باقی بھوک‘پیاس اور بیماری کے باعث راستے ہی میں چل بسے۔ دوسری طرف لانگ مارچ نے چالاک ماؤزے تنگ اور اس کے ساتھیوں کو کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ بناڈالا۔
جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کا ایک ہی بیٹا تھا کوریا کے ساتھ ہوئی جنگ میں اپنے اس اکلوتے بیٹے کو سب سے پہلے جنگ پر روانہ کر دیا‘ جب اس کی لاش واپس آئی تو یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیاکہ ’’ اس جنگ میں ایک میرا ہی بیٹا کام نہیںآیا‘ بے شمار والدین اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کر رہے ہیں پہلے ان کا غم ہے پھر میرا ‘میں پہلے ان کے آنسو پونچھ لوں‘‘ یہ تھا وہ فلسفہ جس نے چین جیسے ملک کو ایک قوم بنا دیا۔ ایک بار انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سردی میں دریائے شنگھائی تیر کر پار کریں گے۔ جما دینے والی سردی میں سارا شہر ماؤ کو دیکھنے کے لیے امڈ آتا ہے۔ عوام کاا تنا رش ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو دھکے مار کر آگے آنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ آئے‘کپڑے اتارے اور یخ بستہ رات میں دریائے شنگھائی کے یخ بستہ پانی میں چھلانگ لگا دی‘ سارا دریائے شنگھائی تیر کر پار کیا اور پھر واپس تیر کر جہاں سے چھلانگ لگائی تھی وہیں پر آگئے۔ اس مشق کا مقصد تیر کر دریائے شنگھائی پار کرنے والے چینیوں کی تکالیف کا عمل ہونے کی نشاندہی کرنا تھا۔

ماؤزے تنگ انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ اتنی انگریزی کتابیں پڑھ رکھی تھیں جتنی انگریز ادیبوں نے بھی نہ پڑھی ہوں گی‘یورپ میں شائع ہونے والی ہر انگریزی کتاب خاص طور پر منگوا کر پڑھتے تھے۔ جب رچرڈ نکسن چین کے دورے پر آیا تو ماؤزے تنگ نے اسکی لکھی ہوئی ساری کتابیں دکھائیں تو رچرڈ نکسن بہت حیران ہوا‘ اسے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ماؤزے تنگ انگریزی بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی دوسری سر زمین پر قدم نہیں رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں چینی لیڈر ہوں اور چین میں ہی رہوں گا۔
’’ ترقی کی ملحوظ خاطر رکھو اور کبھی ہمت نہ ہارو‘‘ماؤزے تنگ
*اہل چین کومحنت کی عظمت پر کامل یقین رکھ کر اپنے تما م کام اپنے ہاتھوں سر انجام دینے چاہیں۔*میرے نزدیک تما م مادی چیزوں کو سب لوگوں میں یکساں تقسیم کیا جانا چاہیے۔*یکطرفہ اقدامات کو اپنے امور سے خارج کر ڈالو۔*ترقی حاصل کرنے لیے مستقل مزاجی اور جدو جہد مسلسل ضروری ہے۔*جمہوری حکومت کے قیام کے لیے مناسب حکمت عملی اور صالح قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ *علم کا حصول تجربہ کے بغیر بیکار ہے۔*اپنے آپ کی حالت جنگ میں محسوس کر و‘مگر رابطہ سے جی نہ چراؤ‘ان کی حمایت حاصل کرو تا کہ قوم کو خوشحالی نصیب ہو۔*کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچو پھر اس پر ثابت قدمی کے ساتھ عمل شروع کردو۔*عوامی مسائل کوحل کئے بغیر خوشحالی ناممکن ہے۔* فوج کی مدد کے لیے پوری قوم کو فوجی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔*کامیابی چاہتے ہو تو دل و دماغ سے فاسد خیالات کو نکال باہر کرو۔*عورتوں کے لیے بھی ان امور کی انجام دہی ممکن ہے جو مرد کر سکتے ہیں۔*ہماری ترقی صرف اس وقت ممکن جب ہم عوامی مفادات کو تسلیم کریں گے۔ *اے قوم!خود کسی بھی معاملہ اور پریشانی میں کسی کی محتاج نہ بننا ۔*فحش کاموں کے آزادانہ رواج سے قوموں کی حالت خراب ہو جاتی ہے‘ اس سے قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور تفرقہ بازی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ *کسی جائز کام کی جدو جہد میں قربانی تو دینا ہی پڑتی ہے‘ ان حالات میں موت کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ *زندگی میں کبھی کبھی نیک عمل کرنا چنداں مشکل نہیں بلکہ نیک عمل کو تاحیات جاری رکھنا مشکل ہے۔ *مشکلات کے دوران کامیابیوں کو یاد کر کے اپنے اندر حوصلہ پیدا کرو۔*موت سے فرار ممکن نہیں مگر اس کی اہمیت مختلف ہو سکتی ہے۔ *کوئی کام اگر نتیجہ کے حصول کے بغیر کیا جائے تو اس کام کا نہ کرنا ہی مناسب ہے۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…