پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

موچی کا بیٹا:سٹالن شاعر، ایڈیٹر، ڈاکو اور جرنیل,,,,,,جوزف سٹالن کی زندگی کے حیرت انگیز واقعات

datetime 13  ستمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ان دنوں ماسکو کے نواح میں ایک پرہیز گار بوڑھی عورت رہا کرتی تھیں‘ روسی عیسائی ان کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ وہ نابینا پیدا ہوئی تھیں لیکن روحانی بصارت کی بنیاد پر عام لوگوں سے کہیں زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ وہ مریضوں کے علاج اور پیشین گوئی کرنے پر قدرت رکھتی تھیں۔ دارالحکومت کو خیر باد کہنے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے سٹالن ان دنوں ان کے پاس پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ ان کے کمرے میں داخل ہوئے تھے تو نیک عورت کھڑکی کی جانب منہ کیے بیٹھی تھیں اور ان کی پشت سٹالن کی جانب تھی۔ سٹالن داخل ہوئے اور اپنے ہمراہی کو چلے جانے کا اشارہ کیا۔ بوڑھی خاتون خاموش رہیں۔ سٹالن کھنکارے۔
’’سٹالن! کہیں تمہیں زکام تو نہیں ہو گیا؟‘‘ پرہیزگار خاتون نے دھیرے سے استفسار کیا تھا۔
’’آداب!‘‘ سٹالن نے فوری جواب دیا اور کہا، ’’میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔‘‘
’’یہ ہوئی نہ بات۔ اب تمہارا صحت یاب رہنا ہی کارآمد ہوگا۔ حالات دشوار ہیں اور جلد ٹھیک ہونے والے نہیں۔ مگر فرار ہونے کی خاطر خصوصی ریل گاڑی یونہی تیار کر لی گئی ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کو کیسے معلوم ہے؟‘‘ سٹالن نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔
’’رب عالم کی جانب سے‘‘ پرہیزگار خاتون نے دھیرج سے کہا تھا۔’’مت جانا۔ جرمن ماسکو میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیا میری فتح بھی ہوگی؟‘‘
نیک خاتون نے گردن گھمائی: ’’تمھاری نہیں‘ ہماری تمام لوگوں کی فتح ہوگی۔ کیونکہ رب عالم ہمارے ساتھ ہے۔ ہاں تمہاری فتح بھی ہوگی۔۔۔ کیا فیصلہ کیا ہے‘ نہیں جاؤگے ناں؟‘‘
سٹالن نے ایک کے بعد دوسرے قدم پہ زور دیتے ہوئے جوتیاں چرچرائیں تھیں اور کہا: ’’سوچنا پڑے گا۔‘‘
سٹالن ماسکو سے نہیں گئے تھے۔ ہٹلر کی کمان نے ماسکو کو سات نومبر 1941ء کو قبضے میں لینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عین اس روز کریملن کی دیوار کے اس جانب سرخ فوج کی پریڈ ہوئی تھی۔ سلامی جوزف سٹالن نے لی۔ ٹینکوں کے پہیوں پہ چڑھے زنجیری حلقے جھنجھنا رہے تھے۔ فوجیوں کی قطاروں میں سائبیریا سے پہنچے ہوئے لڑاکا دستے اور مشرق بعید سے آئے ہوئے چھاتہ بردار شامل تھے۔ پریڈ کے فوراً بعد وہ محاذ کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ دنیا میں اس پریڈ کی خبر سے زیادہ اہم خبر نہیں تھی۔ ماسکو کے نواح میں نازی فوج پہ جوابی حملہ کیا جا چکا تھا۔ سوویت کیمرہ مینوں نے ’’ماسکو کے نواح میں جرمن فوج کی ہزیمت‘‘ کے نام سے فلم تیار کی تھی۔ اسے دنیا کے کئی ملکوں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں اس فلم کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی تھی کیونکہ وہ پہلا ملک تھا جو ہٹلر مخالف اتحاد کا حصہ بنا تھا۔ وہاں کے لوگ یورپ اور افریقہ کے محاذوں پر نازیوں کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ 1943ء میں ماسکو کے نواح میں ہونے والی لڑائی سے متعلق اس دستاویزی فلم کو بہترین دستاویزی فلم کے طور پر ’’آسکر‘‘ انعام دیا گیا۔ایسے لوگوں کو جو پیش بینی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ خیر و شر کے درمیاں بڑی لڑائیوں کا نقشہ بہت اچھی طرح سے دکھائی دے جاتا ہے۔ جیسا کہ حقیقی واقعات نے دکھا دیا تھا کہ ایسے لوگوں کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی تھیں۔
عمل تنویم (مسمریزم‘ جس میں کسی شخص کے اعصاب پر قابو پا کر اسے سلا دیا جاتا ہے) کے نامور ماہر‘ پیش بین اور شعبدہ باز وولف میسنگ نے جو بہت سے ملکوں میں اپنا شو پیش کیا کرتے تھے‘ ایک بار سٹیج پہ کہہ دیا کہ اگر جرمنی نے سوویت یونین کے خلاف جنگ چھیڑ دی تو خود جرمنی کا ہٹلر جان سے چلا جائے گا۔ ہٹلر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اسے بہت غصّہ آیا۔ اس نے میسنگ کے سر کی قیمت دولاکھ جرمن مارک لگا دی۔ نازیوں کی خفیہ ایجنسی وارسا میں میسنگ کو حراست میں لینے میں کامیاب بھی ہو گئی لیکن گسٹاپو کے چنگل سے نکلنے کے لیے میسنگ نے محافظوں پر نیند طاری کر دی اور حراست سے بھاگ نکلا۔ پھر وہ سوویت یونین پہنچ گیا۔
سوویت شہروں میں میسنگ کے شو بہت زیادہ مقبول رہے تھے۔ وہ لوگوں پہ عمل تنویم کرتا اور لوگوں کی سوچ پڑھ کر بتایا کرتا تھا۔ 1940ء کے موسم سرما میں‘ سوویت یونین پر جرمنی کے حملے سے کئی ماہ پیشتر اس نے سرخ فوج کی فتح کی پیشین گوئی کر دی۔ میسنگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے برلن کی سڑکوں پر سرخ ستارے سے مزین ٹینک چشم تصور میں دیکھے ہیں۔ 1943ء میں ایک شو کے دوران اس نے فتح کی حتمی تاریخ 9 مئی بھی بتا دی۔ اس پیشین گوئی کے بارے میں سٹالن کو معلوم ہو گیا۔ پھر جب 9 مئی 1945ء کو جرمنی نے شکست کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تو سٹالن نے میسنگ کو تہنیتی تار ارسال کیا۔
جنگ کے بعد سٹالن نے میسنگ کو کریملن میں طلب کیا۔ فنکار نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ سوویت حاکم‘ پائپ پیتے رہے اور کوئی خاص حیرت کا مظاہرہ نہیں کیا‘ بس پوچھا: ’’یہ بتائیں کہ اگر میں آپ کو یہاں سے باہر نہ نکلنے دینے کا حکم صادر کر دوں تو کیا آپ کریملن سے نکل سکتے ہیں؟‘‘۔
’’کوشش کرکے دیکھوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر میسنگ نے سٹالن سے رخصت لی اور دروازے سے باہر نکل گئے۔ وہ تمام حفاظتی حد بندیوں سے گذرتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گیا۔ شام کو سٹالن نے انہیں فون کیا: ’’یہ بتائیں کہ آپ نے ایسا کیونکر کیا؟ سب حفاظتی چوکیوں کو حکم تھا کہ آپ کو جانے نہ دیں۔‘‘
’’بہت آسان تھا۔ آپ نے تو میسنگ کو جانے نہ دینے کا حکم دیا تھا۔ مجھے محافظوں کے دماغ میں ڈالنا پڑا تھا کہ میں مارشل ووروشیلوو ہوں۔‘‘



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…