کیپ ٹاؤن(نیوز ڈیسک)جنوبی افریقہ کی ایک میئر یونیورسٹی میں 16 طالبہ کو کنواری رہنے کی شرط پر سکالرشپ دینے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔میئر ڈودو موزیبکو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد صوبہ کوازولو ناتال کے ضلع اوتھوکیلا میں جوان لڑکیوں کو ایچ آئی وی، ایڈز اور خواہش کے بغیر حاملہ ہونے سے روکنا ہے۔انھوں نے بتایا کہ سکالرشپ حاصل کرنے والی طالبہ کو باقاعدگی سے کنوارے پن کے ٹیسٹ کے ذریعے ثبوت دینا ہو گا۔ایک اندازے کے مطابق جنوبی افریقہ میں 63 لاکھ افراد کو ایچ آئی وی کا مرض لاحق ہے۔جنوبی افریقہ میں عورتوں سے بدسلوکی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم (Powa) کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ سکالرشپ کی شرط لڑکیوں کے حقوق اور ان کی عزت و وقار کی خلاف ورزی ہیں۔‘اڈوملنگ مولوکو کے مطابق’ کنوارے پن کے ٹیسٹ سے ایچ آئی وی اور ایڈز کو نہیں روکا جا سکتا۔‘میئر ڈودو موزیبکو کے مطابق سکالرشپ حاصل کرنے والی طالبہ کا پہلے ہی سالانہ زولو تہوار کے لیے کنوارے پن کا ٹیسٹ ہو چکا ہے۔اس تہوار میں صرف کنواری لڑکیاں اور خواتین ہی رقص کر سکتی ہیں۔بی بی سی کے ایک سوال کہ آیا اگر ان کی اپنی بیٹیوں کو بھی اس ٹیسٹ کے لیے کہا جائے تو آپ کا ردعمل ہو گا؟اس پر میئر ڈودو موزیبکو نے کہا ہے کہ ہاں بالکل ان کی پوتیاں اس برس کے زولو تہوار میں شرکت کی خواہش مند ہیں۔جنوبی افریقہ میں صنفی برابری کے لیے کام کرنے والے کمیشن نے بھی اس اقدام پر تنقید کی ہے۔کمیشن کے چیئرمین نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ’ میرے خیال میں میئر کا اقدام اچھا ہے لیکن ہم کنوارے پن کی شرط پر سکالرشپ دینے کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔خیال رہے کہ جنوبی افریقہ میں کوازولو ناتال کا شمار ان صوبوں میں ہوتا ہے جہاں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔