اسلام آباد (نیو ز ڈیسک )ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ساحل سے 75 کلومیٹر کی دوری پر ایک جزیرہ ہے جو بیسٹوئے کہلاتا ہے۔ ہرے بھرے جزیرے کی آبادی 115 افراد پر مشتمل ہے جو لکڑی سے بنے ہوئے مکانوں یا کاٹیجز میں رہتی ہے۔جزیرے کے باسی کاشت کاری، گلہ بانی، ماہی گیری جیسے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں جن پر سوار ہوکر وہ گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک ٹینس کورٹ اور سوانا ( بھاپ سے غسل کرنے کی جگہ) کی سہولت بھی موجود ہے۔ جزیرے کے خوبصورت ساحل پر مکین غسل آفتابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جزیرے کے وسط میں ایک مارکیٹ ہے جہاں سے لوگ ضرورت کی اشیاءخریدتے ہیں۔درج بالا تفاصیل سے آپ کے ذہن میں ایک جزیرے پر بسے ہوئے پ±رسکون گاﺅں کا تصور ابھرا ہوگا جہاں کے باسی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوں۔ مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بیسٹوئے پر کوئی گاﺅں آباد نہیں بلکہ یہ سرکاری جیل ہے، اور یہاں رہنے والے 115 افراد قیدی ہیں! ان قیدیوں میں خطرناک قاتل اور منشیات فروش بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ قیدی اس جزیرے پر قیدیوں کی طرح نہیں بلکہ گاﺅں کے باسیوں کی طرح رہتے ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ تو جزیرے کے اطراف کوئی حفاظتی دیوار تعمیر ہے اور نہ ہی خارداریں تاریں لگی ہوئی ہیں، نہ یہاں خونخوار ک±توں کی زنجیر تھامے مسلح محافظ گشت کرتے نظر آتے ہیں ( پانچ محافظ ضرور ہیں مگر وہ رات میں صرف چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہیں)، نہ ہی قیدیوں کو کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا ہے۔ رات کے کھانے میں قیدیوں کو ان کی من پسند ڈشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ البتہ ناشتہ انھیں خود تیار کرنا ہوتا ہے۔ ناشتے کا سامان اور دیگر اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے انھیں حکومت کی طرف سے ماہانہ رقم فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اشیاءوہ جزیرے پر قائم مارکیٹ سے خرید سکتے ہیں۔اگر روایتی جیلوں سے موازنہ کیا جائے تو بیسٹوئے، قیدیوں کے لیے جنت سے کم نہیں، جہاں وہ جزیرے کی حدود میں رہتے ہوئے، اپنی مرضی سے شب و روز بسر کرنے اور پتلی دال کے بجائے من چاہا کھانا کھانے کے لیے آزاد ہیں۔خطرناک قیدیوں کو جیل کی کوٹھری کے بجائے اس ’ جنت ‘ میں رکھنے کا سبب کیا ہے؟ اس بارے میں بیسٹوئے کے سابق گورنر آرنی نیلسن کہتے ہیں کہ اس کی وجہ قیدیوں کو سدھرنے میں مدد دینا ہے۔ روایتی جیلوں کے برعکس اس جیل سے آزاد ہونے والے قیدیوں میں پھر سے جرائم کا ارتکاب کرنے کی شرح بہت کم، محض 16 فی صد ہے۔ جب کہ یورپ میں یہ شرح 70فی صد ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں