جمعہ‬‮ ، 21 فروری‬‮ 2025 

جیل جو قیدیوں کےلئے جنت سے کم نہیں

datetime 14  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیو ز ڈیسک )ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ساحل سے 75 کلومیٹر کی دوری پر ایک جزیرہ ہے جو بیسٹوئے کہلاتا ہے۔ ہرے بھرے جزیرے کی آبادی 115 افراد پر مشتمل ہے جو لکڑی سے بنے ہوئے مکانوں یا کاٹیجز میں رہتی ہے۔جزیرے کے باسی کاشت کاری، گلہ بانی، ماہی گیری جیسے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں جن پر سوار ہوکر وہ گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک ٹینس کورٹ اور سوانا ( بھاپ سے غسل کرنے کی جگہ) کی سہولت بھی موجود ہے۔ جزیرے کے خوبصورت ساحل پر مکین غسل آفتابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جزیرے کے وسط میں ایک مارکیٹ ہے جہاں سے لوگ ضرورت کی اشیاءخریدتے ہیں۔درج بالا تفاصیل سے آپ کے ذہن میں ایک جزیرے پر بسے ہوئے پ±رسکون گاﺅں کا تصور ابھرا ہوگا جہاں کے باسی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوں۔ مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بیسٹوئے پر کوئی گاﺅں آباد نہیں بلکہ یہ سرکاری جیل ہے، اور یہاں رہنے والے 115 افراد قیدی ہیں! ان قیدیوں میں خطرناک قاتل اور منشیات فروش بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ قیدی اس جزیرے پر قیدیوں کی طرح نہیں بلکہ گاﺅں کے باسیوں کی طرح رہتے ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ تو جزیرے کے اطراف کوئی حفاظتی دیوار تعمیر ہے اور نہ ہی خارداریں تاریں لگی ہوئی ہیں، نہ یہاں خونخوار ک±توں کی زنجیر تھامے مسلح محافظ گشت کرتے نظر آتے ہیں ( پانچ محافظ ضرور ہیں مگر وہ رات میں صرف چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہیں)، نہ ہی قیدیوں کو کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا ہے۔ رات کے کھانے میں قیدیوں کو ان کی من پسند ڈشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ البتہ ناشتہ انھیں خود تیار کرنا ہوتا ہے۔ ناشتے کا سامان اور دیگر اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے انھیں حکومت کی طرف سے ماہانہ رقم فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اشیاءوہ جزیرے پر قائم مارکیٹ سے خرید سکتے ہیں۔اگر روایتی جیلوں سے موازنہ کیا جائے تو بیسٹوئے، قیدیوں کے لیے جنت سے کم نہیں، جہاں وہ جزیرے کی حدود میں رہتے ہوئے، اپنی مرضی سے شب و روز بسر کرنے اور پتلی دال کے بجائے من چاہا کھانا کھانے کے لیے آزاد ہیں۔خطرناک قیدیوں کو جیل کی کوٹھری کے بجائے اس ’ جنت ‘ میں رکھنے کا سبب کیا ہے؟ اس بارے میں بیسٹوئے کے سابق گورنر آرنی نیلسن کہتے ہیں کہ اس کی وجہ قیدیوں کو سدھرنے میں مدد دینا ہے۔ روایتی جیلوں کے برعکس اس جیل سے آزاد ہونے والے قیدیوں میں پھر سے جرائم کا ارتکاب کرنے کی شرح بہت کم، محض 16 فی صد ہے۔ جب کہ یورپ میں یہ شرح 70فی صد ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بخارا کا آدھا چاند


رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…