دلہن کا بارات آنے پر دھرنا

20  فروری‬‮  2015

بھارت کی ریاست بہار کے ایک علاقے میں ’پكڑوا شادی‘ یعنی پکڑ کر شادی کرنے کا رواج بھی رہا ہے جس میں لڑکے کو اغوا کر اس کی زبردستی شادی کرا دی جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ ضلع بیگوسرائے کے مقدم پور گاؤں کا ہے جہاں دلہن بارات لے کر سسرال پہنچی اور گھر کے سامنے ہی دھرنے پر بیٹھ گئی۔

مقدم پور گاؤں کے سربراہ نے جوس پلا كر ان باراتیوں کا دھرنا اور بھوک ہڑتال تو ختم کرا دی لیکن معاملہ ابھی سلجھ نہیں پایا ہے۔

لڑکے والے جہاں شادی سے ہی انکار کر رہے ہیں وہیں لڑکی کی طرف والے لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی لڑکے کی مرضی سے ہوئی تھی لیکن جہیز کا مطالبہ پورا نہ ہونے کے سبب انھیں پریشان کیا جا رہا ہے۔

بھرول گاؤں کے مہا کانت ایشور کی بیٹی پریتی کماری کی شادی گذشتہ برس اپریل میں مقدم پور کے دھیرج ٹھاکر سے ہوئی تھی۔

مہا کانت ایشور کہتے ہیں: شادی کے دوران ہی لڑکے والے جہیز کا مطالبہ کرنے لگے اور معاملہ طول پکڑ گیا۔

150219170800_150217144305_priti_s_barat

متعدد کوششوں کے باوجود بھی دھیرج اور ان کے خاندان سے بات تو نہیں ہو پائی لیکن ان کے رشتہ داروں کے مطابق یہ ’پكڑوا شادی‘ کا معاملہ ہے۔

منصور چك تھانے کے انچارج سربجيت کمار کے مطابق’ لڑکے کے بھائی نے یہ ایف آئی آر درج کروائی تھی کہ شادی کروانے کے مقصد سے دھیرج کو اغوا کر لیا گیا ہے۔‘

پولیس اہلکار سربجيت کے مطابق اغوا کی شکایت کے بعد پولیس نے دھیرج کو اسی جگہ سے برآمد کیا جہاں شادی کی گئی تھی لیکن اس وقت تک شادی ہو چکی تھی۔

اس دوران اغوا کے الزام میں میں پریتی کے والد سمیت بعض دیگر افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

150219170851_150217144305_priti_with_media_persons

اس طرح کی شادیوں میں ہر فریق خود کو صحیح ٹھہراتا ہے۔ لڑکی والے جہاں جہیز اور سماجی روایت کا حوالہ دیتے ہیں تو وہیں لڑکے اور ان کے خاندان والے اپنی آزادی کی بات کرتے ہیں۔

اب دلائل جو بھی ہوں لیکن پریتی کے پاس اب گویا سسرال میں کسی بھی طرح داخل ہونا ہی واحد حل بچا ہے۔

پریتی نے گذشتہ برس دسمبر میں اس سلسلے میں ریاستی دارالحکومت پٹنہ جا کر’ وومن کمیشن‘ میں شکایت درج کرائی تھی۔

شکایت کے بعد کمیشن کی رکن رینا کماری نے اس معاملے میں مداخلت کی۔

150219170903_150217144305_bswc_member_rina_kumari_interacing_with_villagers

رینا کماری مانتی ہیں کہ پریتی اور دھیرج کی ’پكڑوا شادی‘ ہوئی تھی لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس میں لڑکی کی کوئی غلطی نہیں ہے اور پوری کوشش ہے کہ پریتی کو اس کا حق ملے۔

ادھرسماجی کارکن اور پٹنہ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈی جي نارائن کے مطابق اس ’قرون وسطیٰ کی روایت‘ کی جڑ میں جہیز کی رسم ہے۔

وہ کہتی ہیں ’جہیز ایسی شادیوں کا بڑا سبب ہے۔ ایسی شادیوں میں لڑکی چاروں طرف سے گھر جاتی ہے اور اس پر کئی طرح کے مظالم ہوتے ہیں لیکن جہیز جیسی برائی سے بچنے کے لیے اس طرح کا جرم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…