گذشتہ دنوں ایک چینی ریستوراں میں روبوٹ ویٹر متعارف کروائے گئے تھے لیکن بہت جلد یہ خود کار مشینیں بینکوں میں بھی ذمہ داریاں نبھاتی نظر آئیں گی۔
فرانسیسی کمپنی ’’ الدیبران روبوٹکس‘‘ نے چند روز قبل جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں منعقدہ ایک نمائش کے دوران اپنا تیارکردہ روبوٹ پیش کیا۔ ’’ ناؤ‘‘ نامی یہ روبوٹ، خودکار مشینوں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو ہیومنائیڈ کہلاتی ہے۔ اس قسم کے روبوٹ نما انسان ہوتے ہیں۔ روبوٹ سازی میں جاپان نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ الدیبران روبوٹکس بھی جاپانی ٹیلی کوم اور انٹرنیٹ کمپنی، سوفٹ بینک کی ملکیت ہے۔ اس طرح دنیا کے پہلے کسٹمر سروس روبوٹ کی تخلیق کا سہرا بھی جاپانیوں کے سَر ہے۔
ناؤ کا قد 58 سینٹی میٹر ( ایک فٹ گیارہ انچ ) ہے۔ یہ روبوٹ جاپان کے سب سے بڑے بینک، مٹسوبشی یو ایف جے کی شاخ میں آزمائشی طور پر اپریل سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ ناؤ کی تسلی بخش کارکردگی کی صورت میں ان روبوٹوں کا دائرہ کار بہ تدریج مزید شاخوں تک پھیلادیا جائے گا۔
بینک میں کام کرنے والے ملازمین ، عام طور پر زیادہ سے زیادہ دو تین زبانیں ہی جانتے ہیں مگر ناؤ انیس زبانیں بول سکتا ہے۔ اس طرح مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کسٹمرز سے یہ انھی کی زبان میں بات کرسکتا ہے۔ یہ بہت اہم خوبی ہے جو کسٹمرز پر بینک کا اچھا تاثر قائم کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ ناؤ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ پیشانی پر نصب کیمرے کی مدد سے یہ کسٹمر کے چہرے پر نظر آنے والے تاثرات اور لہجے کے ذریعے ان کے خیالات کا اندازہ کرتا ہے۔ پھر انھیں خوش آمدید کہتا ہے اور متاثر کن آواز میں ان کی آمد کا مقصد دریافت کرتا ہے۔
ساڑھے پانچ کلو گراز وزنی ناؤ کی ’ پیدائش ‘ 2006ء میں پیرس میں ہوئی تھی۔ بعدازاں کئی برس اس کی ’ تربیت ‘ پر صرف کیے گئے۔ اس دوران ناؤ کی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اس میں نئی نئی ٹیکنالوجیز سے متعارف کرائی جاتی رہیں۔ بالآخر اس کی کارکردگی سے مطمئن ہوجانے کے بعد پچھلے دنوں اسے نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
نمائش کے دوران ناؤ نے کارکردگی کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ جب ایک انگریزی بولنے والا ’ کسٹمر‘ اس کے پاس پہنچا تو وہ اس سے یوں مخاطب ہوا،’’ خوش آمدید، میں آپ کو منی ایکسچینچ، اے ٹی ایم، نئے اکاؤنٹ کھولنے، یا بیرون ملک سے ترسیلات زر کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہوں۔ آپ کس سلسلے میں معلومات چاہتے ہیں؟‘‘
متعدد جاپانی کمپنیاں روبوٹ سازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کررہی ہیں جن میں مٹسوبشی یو ایف جے شامل ہے۔ جاپانی حکومت بھی اس شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ وزیراعظم شینزوآبے ملک میں گھٹتی ہوئی افرادی قوت کا ازالہ کرنے کے لیے ’ روبوٹ انقلاب‘ لانے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی کمپنیاں بالخصوص ایسے روبوٹوں کی تخلیق پر توجہ دے رہی ہیں جو تجارتی اور صنعتی اداروں میں عام ملازمین کی طرح ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔
اشیائے خورونوش اور گھریلو استعمال کی دیگر چیزیں بنانے والی ایک سوئس کمپنی نے بھی جاپان میں اپنی ایک ہزار دکانوں پر ’ روبوٹ سیلزمین‘ ’ ملازم ‘ رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ’’ پیپر‘‘ ( Pepper ) نامی یہ روبوٹ سال رواں کے آخر تک ان دکانوں پر کافی بنانے والی مشینیں فروخت کرتے نظر آئیں گے۔
سوفٹ بینک کی ٹوکیو میں واقع دکان پر، 120 سینٹی میٹر اونچا پیپر پہلے ہی معاون سیلزمین کی حیثیت سے اپنے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دے رہا ہے۔ سوفٹ بینک کے چیف ایگزیکٹیو مایاسوشی سون کے مطابق اس اقدام سے ان کا مقصد ایک ایسے روبوٹ کی تخلیق ممکن بنانا ہے جو انسان کے جذبات اور نقطہ نظر کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق ازخود اقدام کرے۔
اسی طرح گذشتہ ماہ ’ہوئس ٹین بوش تھیم پارک‘ کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ پارک میں نوتعمیر شدہ ہوٹل میں پورٹر سے لے کر روم کلینر اور استقبالیہ پر تمام ذمہ داریاں روبوٹ سنبھالیں گے۔ اس طرح جون میں کھولا جانے والا یہ دومنزلہ ہوٹل تقریباً مکمل طور پر خودکار مشینیں چلائیں گی۔ ہوٹل میں قیام کرنے والے مہمانوں کو یہ سہولت بھی حاصل ہوگی وہ چاہیں تو اپنے کمرے کا دروازہ چابی کے بجائے چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے ذریعے کھول سکیں گے۔ روبوٹوں کے علاوہ ہوٹل میں دس افراد پر مشتمل عملہ بھی موجود ہوگا۔
ناؤ کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ ’ سَر ہوجانے والے‘ کسٹمرز کو بھی بہ آسانی ہینڈل کرلے گا۔ کمپنی کے مطابق 2020ء میں ٹوکیو میں اولمپکس کے انعقاد سے قبل، ناؤ پوری طرح کسٹمر سروس کی ذمہ داریاں نبھارہا ہوگا۔