انسان نے جدید ایجادات کرکے دنیا میں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں اور اسی جدت نے انسان کو سہل پسند بھی بنا دیا ہے، نت نئے تجربات اور ایجادات سامنے آ رہی ہیں، ایک جانب سائنسی ترقی جاری ہے تو دوسری جانب انسان اپنی غذا سے متعلق بھی پریشان ہے، ماحولیاتی آلودگی اور ملاوٹ سے خوراک انسان کے لئے زہر کا کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ قومیں تو منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ خالص خوراک کے مسئلے اور غذائی قلت کو کیسے پورا کیا جائے۔
پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جو قدرتی نعمتوں سے مالامال ہے، ہمارے ہاں ہر طرح کے موسم ہیں جن کی وجہ سے ہم ہر طرح کی فصلیں اُگا سکتے ہیں، ہماری زمینیں زرخیز ہیں، زیادہ تر علاقوں میں نہری نظام موجود ہے، جن علاقوں میں نہری نظام نہیں ہے اب لوگوں نے ٹیوب ویل لگانے شروع کر دیے ہیں لیکن ان تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بدقسمتی سے غذائی اجناس کی قلت ہے جو ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود آبادی کا ایک بڑا حصہ خوراک سے محروم ہے۔ یونیسف کے ایک سروے کے مطابق پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں، چاول پیدا کرنے والا دسواں، گنا پیدا کرنے والا پانچواں اور دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پاکستان ان ممالک کی فہرست میں سب سے آگے ہے، جہاں غذائی قلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میں بچے اور نوجوان غذائی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد بھی غذائی قلت سے متاثر ہے، ہمارے ہاں غذائی قلت اب توجہ طلب مسئلہ ہے۔ ہمارے سماجی رویے اور منفی عادات بھی غذائی قلت کے معاملے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، ہم لوگ طبی ماہرین کے مفید مشورے کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں، اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
پاکستان میں غربت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور اسی غربت کی ہی وجہ سے لوگوں کو مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ اس دو وقت کی روٹی کے حصول نے آج کے انسان کو اس طرح سختی سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے کہ زندگی بس اسی کے گرد گھومتی رہتی ہے۔غربت، بھو ک، افلاس انسان سے جینے کا حق چھین لیتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں روٹی نے ہی انسان کو اتنا اُلجھا کر رکھ دیا ہے کہ غریب کی زند گی کے شب و روز صرف روٹی کے بارے میں سوچتے ہوئے گزرتے ہیں۔
صحت مند زندگی گزارنے کے لئے متوازن خوراک کی ضرور ت ہوتی ہے، اس میں انڈے، دودھ، گوشت، سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔ کسی بھی غذا کی کمی یا زیادتی ہمارے لئے مسائل پیدا کرتی ہے، جس سے وٹامنز کی کمی یا زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا
ہے اور انسانی جسم کے لئے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ معاشرے میں بچے کے صحت مند ہونے کو قوم کا محفوظ مستقبل قرار دیا جاتا ہے،ہمارے ملک میں غذائی قلت کی وجہ سے زیادہ تر بچے وزن اور خون کی کمی کا شکار ہیں، ان بچوں کی زیادہ تعداد کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے ہے۔ نوجوان خواتین میں سے پچاس فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں، طبی ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں ساٹھ فیصد سے زائد بچوں اور خواتین میں خون، فولاد، پروٹین، وٹامن اے اور دیگر اشیاء کی کمی پائی جاتی ہے، فولاد کی کمی بڑھتی عمر کے بچوں میں مدافعتی نظام کو کمزور کردیتی ہے۔ فولاد ایک معدنی شے ہے اور ہرانسان کے جسم اور ہیموگلوبن بنانے کے لئے اس کی ضرورت ہوتی ہے، ہیموگلوبن کے سرخ جرثومے جسم میں آکسیجن پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، جب فولاد کی کمی ہوتی ہے تو جسم کے خلیوں کو پوری طرح آکسیجن نہیں ملتی اور انسان کمزور ہونا شروع ہوتاہے، نومولود اور بچوں میں خوراک اور غذائیت کی اہمیت کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،
ماہر صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کے بہت سے مسائل کا براہ راست تعلق والدہ اور نومولود بچے کی خوراک سے ہوتا ہے، جب ایک ماں بچے کو دودھ پلانا روک دیتی ہے تو وہ مسلسل انفیکشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ غذا کی کمی ہر ایک کو متاثر کرتی ہے، اس کی شدت میں مبتلا بچے الگ سے نظر آتے ہیں، وہ سست، کم سرگرم، افسردہ اور کمزور ہوتے ہیں، ان کی نشوونما پر فرق پڑتا ہے اور پٹھے اور عضلات بھی کمزور ہوتے ہیں۔ اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوجھ جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں، اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں، خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑھوتری نہیں ہو پاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہو سکتا ہے، پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتاہے اور یہ سب آئرن کی کمی کے باعث ہوتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی میسی یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کے بعد آئرن اور دودھ پر مشتمل آئرن پلس متعارف کرایا ہے، یہ آئرن اور قدرتی دودھ کا ایک متوازن امتزاج ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے بچوں کی نشوونما پر انتہائی مثبت اثرات پڑیں گے۔ آئرن پلس ہے کیا اس بارے میں بتاتے چلیں کہ بووائن (قدرتی دودھ) میں فاسفیٹ اور ایک پروٹین، جسے کیسین کہتے ہیں یہ دو اہم اجزا شامل ہوتے ہیں، ان دونوں کا آئرن کے ساتھ ایک مثبت امتزاج بنتا ہے اور دودھ کی رنگت اور ذائقے میں بھی کوئی تبدیلی یا منفی ردعمل نہیں ہوتا۔ آئرن پلس کا بچوں میں استعمال نہ صرف ان میں آئرن کی کمی کے خدشات دور کرتا ہے بلکہ ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں بھی بہت معاون ہے۔
چھوٹے بچوں میں اگر آئرن کم ہوجائے تو اسے آئرن سپلیمنٹ وٹامن سی کے ساتھ دینا چاہیے اس طرح وہ جلدی ہضم ہوجاتا ہے۔ اگر کھانے کے ساتھ دیا جائے تو اس کا اثر کم ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ آئرن سپلیمنٹ دودھ یا دودھ سے بنی کسی شے
کے ساتھ بھی نہیں دینا چاہیے۔آئرن حاصل کرنے والے فارمولے یا سیریل، گندم کی کریم، دلیہ، آئرن سے بھرے ناشتے کے سیریل، پھلیاں، کابلی چنے، مسور کی دال،پکے پکائے بین (کین کے اندر)، اوون میں پکے آلو (چھلکے سمیت)، خشک پھل، خشک خوبانی، خشک انجیر، میوے، پرون جوس، اعلیٰ قسم کا پاستا، اعلیٰ قسم کے چاول، سخت ٹوفو، گڑ کا شیرہ، بلیک اسٹریپ، بروکلی، پالک وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں اور پودوں سے حاصل کی گئی خوراک میں بھی آئرن پایا جاتا ہے، جانوروں سے حاصل ہونے والا آئرن ہیمی آئرن کہلاتا ہے جبکہ پودوں سے حاصل کیا گیا آئرن نان ہیمی آئرن کہلاتا ہے۔ انسانی جسم کی بات کی جائے تو یہ نان ہیمی آئرن کی نسبت ہیمی آئرن کو زیادہ اچھی طرح سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر آپ بیماریوں اور مسائل سے بچنا چاہتے ہیں تو متوازن خوراک کے ساتھ ساتھ ورزش کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط معاشرہ ہی ایک طاقتور ملک اور باہمت اور مضبوط قوم کی بنیاد ہوتا ہے اور اچھی ذہانت کی وجہ سے ہی آج انسان کائنات کو تسخیر کئے جا رہا ہے اور نت نئے تجربات اور نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ اچھی صحت ہی اچھے دماغ کی ضامن ہے۔ پاکستانی بھی ذہانت کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں لیکن اگر مزید ترقی کرنی ہے اور مضبوط قوم بننا ہے تو اس کے لئے ذہنی اور جسمانی صحت کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔