امریکا (مانیٹرنگ ڈیسک) کیا آپ دن کا زیادہ وقت سوشل میڈیا نیٹ ورکس جیسے فیس بک کو استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں؟ اگر ہاں تو بری خبر یہ ہے کہ اس عادت کے نتیجے میں آپ کا دماغ مختلف معاملات میں کسی منشیات کے عادی شخص جیسے رویے کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں اس خیال کی جانچ پڑتال کی گئی کہ سوشل میڈیا کی لت کس حد تک انسانی رویوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ سوشل میڈیا سائٹس کا استعمال ایسے رویوں کو فروغ دیتا ہے جو کہ ہیروئین یا دیگر منشیات کے عادی افراد مٰں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس تحقیق میں 71 رضاکاروں میں فیس بک کے استعمال کے اثرات دیکھے گئے اور ایک ٹیسٹ کا حصہ بنایا گیا جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کس حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ جن رضاکاروں نے تسلیم کیا کہ وہ فیس بک پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں، انہوں نے دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں ٹیسٹ میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح کے آئی جی ٹی ٹیسٹ کو دماغی انجری کے شکار افراد سے لے کر ہیروئین کے عادی لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر یہ پہلی بار ہے کہ اس سوشل میڈیا لت کو جانچنے کے لیے آزمایا گیا۔ محققین کے مطابق اس ٹیسٹ کو سوشل میڈیا کی لت کے بارے میں جاننے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے بارے میں کافی کچھ جاننا ممکن ہے۔ ان کے مطابق مستقبل میں اس طریقہ کار کی مدد سے یہ جاننا ممکن ہوگا کہ کوئی شخص کس حدتک سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے اور اس کا دماغی کس حد تک اس عادت سے متاثر ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں فی الحال فیس بک صارفین پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا مگر مستقبل میں مختلف سوشل نیٹ ورکس کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔ محققین کے مطابق فیس بک کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ سب سے زیادہ مقبول ہے مگر امکان ہے کہ دیگر سوشل میڈیا سائٹس کے استعمال کے نتائج بھی اسی سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف بی ہیوئیرل اڈیکشن
میں شائع ہوئے۔ اس سے پہلے 2017 میں امریکا کی ڈی پال یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا کہ سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک کا زیادہ استعمال دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کے دو مختلف میکنزم اس عادت کے نتیجے میں متاثر ہوتے ہیں۔
جن میں سے ایک خودکار اور ردعمل کا اظہار کرتا ہے جبکہ دوسرا رویوں کو کنٹرول اور دماغی افعال کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ یہ دوسرا نظام لوگوں کو بہتر رویے کو اپنانے اور اضطراب پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔ اسی طرح امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ثابت ہوا کہ جو لوگ کسی المناک واقعے سے متعلق جاننے کے لیے سوشل میڈیا سائٹس کو بہت زیادہ چیک کرتے ہیں، انہیں نفسیاتی مسائل کا سامنا دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ
ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ان ویب سائٹ پر غلط معلومات کا پھیلنا بہت آسان ہوتا ہے جس سے بھی کسی فرد کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر بہت زیادہ وقت گزارنا ڈپریشن کا باعث بنتا ہے اور جذباتی کیفیات متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس تحقیق کے دوران 1100 افراد کی آن لائن عادات اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔