اسلام آباد(آن لائن) ملک بھر میں تیسر ے فریق کے ذریعے کروائے گئے آڈٹ کے مطابق رواں برس ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پولیو ویکسین پلانے کی تعداد کے دعوؤں اور نشان زدہ انگلیوں والے بچوں کی تعداد میں بہت زیادہ فرق دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیر صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کروائے گئے تحریری جواب میں یہ بات سامنے آئی کہ پولیو ویکسینز پینے والے بچوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور آڈٹ میں نشان زدہ انگلیوں والے بچوں کی تعداد میں 10 فیصد سے زائد فرق موجود ہے۔
جمع کروائے گئے تحریری جواب میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں ملک گیر پولیو مہم کے دوران 98 فیصد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے، لیکن آڈٹ کے ذریعے یہ انکشاف سامنے آیا کہ صرف 88 فیصد بچوں کو ویکسین پلائی گئی۔یہی معاملہ فروری میں پیش آیا جب 98 فیصد بچوں کو ویکسین پلانے کے اعداد و شمار فراہم کرے گئے لیکن آڈٹ کے مطابق یہ تعداد 89 فیصد رہی۔تاہم مارچ، مئی اور اگست میں ملک کے کچھ حصوں میں ہونے والی پولیو مہم کے نتائج کچھ بہتر رہے البتہ ستمبر، نومبر کے درمیان ملک گیر مہم پولیو ٹیمز نے ایک مرتبہ پھر 97 اور 98 فیصد بچوں کو ویکسین پلانے کا دعویٰ کیا جبکہ آڈٹ کے دوران بچوں کی تعداد 93 فیصد رہی۔اس سلسلے میں پولیو پروگرام کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ جب کسی بچے کو پولیو ویکسین پلائی جاتی ہے تو اس کی انگلی پر لگایا گیا سیاہی کا نشان ایک ہفتے تک قائم رہتا ہے۔چناچہ آزادانہ طور پر کیے گئے سروے جس کو پوسٹ کیمپین مانیٹرنگ بھی کہا جاتا ہے، میں ہر تیسرے یا چوتھے بچے کی انگلیوں پر پولیو ویکیسین کے نشان کا معائنہ کیا گیا جبکہ پولیو ٹیمز نے دعویٰ کیا کہ انک کی کوالٹی بہتر نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ جلدی مٹ گئی۔مذکورہ معاملہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو کے خاتمے، بابر بن عطا کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اٹھایا گیا ۔
جن کا کہنا تھا کہ انہیں پولیو ٹیمز کی جانب سے ویکسین ضائع کرنے اور قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں پر نشان لگانیکی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر ضلعی سربراہان دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے 98 فیصد ٹارگٹ حاصل کرلیا ، لیک اگر مہم اتنی کامیابی سے کی جاتی ہے تو پولیو وائرس اب تک ملک کے بڑے شہروں کے نکاسی آب میں کیوں پایا جاتا ہے۔