منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ننھی زینب کی جان بچانے کیلئے پوری دنیا میں نایاب خون کی تلاش تیز

datetime 9  دسمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی نژاد دو سالہ امریکی بچی کی جان بچانے کے لیے خون کے ایک نایاب گروپ کی ضرورت جس کیلئے  دنیا بھر میں تلاش جاری ہے ۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کینسر کے مرض میں مبتلا زینب مغل نامی اس بچی کو بڑی مقدار میں خون کی ضرورت ہے اور اس کا خون کا گروپ دنیا کا نایاب ترین گروپ بامبے نیگیٹو گروپ ہے جس کی وجہ سے اس کی تلاش میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا گروپ ٹیسٹ کیا گیا ہے لیکن اب تک صرف تین لوگ ایسے ملے ہیں جن کا یہی گروپ ہے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں زینب کے علاج کے لیے سات سے دس عطیہ کنندگان کی ضرورت ہے۔چند ماہ قبل پتہ چلا تھا کہ زینب کو نیوروبلاسٹوما نامی مرض ہے جو خاص طور پر بچوں کو نشانہ بناتا ہے۔جب تک زینب کا علاج چلتا رہے گا، اسے خون کی ضرورت پڑتی رہے گی۔بتایا گیا ہے کہ بچی کے خون کا گروپ ایسا ہے جو صرف پاکستانی، انڈین یا ایرانی نژاد لوگوں میں پایا جاتا ہے تاہم ان ملکوں میں بھی صرف چار فیصد لوگوں کا یہی گروپ ہے۔دو عطیہ کنندگان امریکہ جبکہ ایک برطانیہ سے ملا ہے۔خون پر تحقیق کے ادارے ون بلڈ کی لیبارٹری مینیجر فریڈا برائٹ نے کہاکہ یہ خون اس قدر نایاب ہے کہ میں نے اپنی 20 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں پہلی بار اس قسم کے انتقال خون کا تجربہ کیا ہے۔خون سے ان کے مرض کا علاج نہیں ہو گا لیکن ان کے علاج کے دوران اس کی ضرورت پڑے گی۔زینب کے والد راحیل مغل کا تعلق پاکستان سے ہے انہیں ستمبر میں پتہ چلا کہ زینب کو یہ مرض ہے۔ زینب کے والدین نے اپنا خون دینے کی پیشکش کی لیکن معلوم ہوا کہ ان کا خون زینب کے خون سے نہیں ملتا جبکہ خاندان کے بہت سے لوگوں نے بھی خون دینے کی کوشش کی لیکن یہ گروپ میچ نہیں ہوا ۔علاج سے زینب کی رسولی گھٹنا شروع ہو گئی ہے لیکن آگے چل کر ہڈی کے گودے کے ٹرانسپلانٹ کی بھی ضرورت پڑے گی۔

راحیل نے کہامیری بیٹی کی زندگی کا انحصار خون پر ہے، عطیہ کنندگان زبردست کام کر رہے ہیں اور میں اسے کبھی نہیں بھول پائوں گا۔واضح رہے کہ تمام خون کے گروپ انگریزی حروف تہجی اے، بی، اے بی اور او کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن یہ گروپ انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت بمبئی یا بامبے (فی الحال ممبئی) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر وائي ایم بھینڈے نے 1952 میں اسے دریافت کیا تھا۔اب بھی اس گروپ کے زیادہ تر لوگ ممبئی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کا نسل در نسل منتقل ہونا ہے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…