چین (مانیٹرنگ ڈیسک) یوں تو پیدل چلنا صحت کے لیے فائدہ مند ہے اور یہ انسانی جسم کو متعدد امراض سے بچانے میں بھی مددگار ہوتا ہے لیکن چین میں حال ہی میں پیدل چلنے کاہدف طے کرنا اور اسے پورا نہ کرنے پر جرمانہ عائد کرنے کا دلچسپ واقعہ سامنے آیا۔ چین کی ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی نے ملازمین کو ورزش کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے ماہانہ ہدف طے کیا ہے جس کے حوالے سے
کمپنی کے ملازمین کا دعویٰ ہے کہ ان کا ماہانہ ہدف ایک لاکھ 80 ہزار قدم چلنا ہے۔ ملازمین نے بتایا کہ اگر وہ یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو انہیں ہر نامکمل قدم کے بدلے میں اعشاریہ صفر ایک (0.01) یو آن جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ چین میں روزانہ طے شدہ قدم چلنا ایک مشکل امر بنتا جارہا ہے، صحت کے حوالے سے بعض بیمہ کمپنیاں اپنے صارفین کی روزمرہ واک کی نگرانی کے لیے مختلف ایپس کا استعمال کرتی ہیں اور اہداف پورا کرنے پر مستقبل میں ڈسکاؤنٹ کی پیش کش بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کچھ اسکول اپنے طالب علموں کی روزمرہ ورزش کے لیے روزانہ ان کے موبائل فونز پر پیڈومیٹر ایپس چیک کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ نجی کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو ماہانہ ایک طے شدہ قدم چلنے کا ہدف طے کرتی ہیں لیکن حال ہی میں سامنے والی اس خبر نے تہلکہ مچا دیا ہے کہ ایک کمپنی اپنے ملازمین کو طے شدہ ہدف پورا نہ کرنے پر جرمانہ بھی عائد کر رہی ہے۔ چین کے اخبار ’ انفارمیشن ٹائمز ‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک کے گوانگ ژوا کے جنوبی شہر میں واقع نامعلوم رئیل اسٹیٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کو کم از کم ایک لاکھ 80 ہزار قدم ماہانہ چلنے کا ہدف دیا ہے۔ اس کمپنی کے قوانین کے تحت مذکورہ قدم چلنے کا ہدف پورا کرنے پر صحت مند ہونے کے علاوہ کوئی انعام نہیں ملےگا لیکن اگر ملازمین یہ ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ہر قدم کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ کمپنی کی ایک ملازم زائیو سی نے انفارمیشن ٹائمز کو بتایا کہ وہ گزشتہ ماہ اس ہدف میں سے 10 ہزار قدم پورے نہیں کرسکی تھیں جس کی وجہ سے ان کی تنخواہ سے 100 یوآن جرمانے کے طور پر کاٹ لیے گئے تھے۔ یوں تو 100 یوآن صرف 15 ڈالرز کے برابر ہیں لیکن ملازمت پیشہ افراد کے لیے ہر ایک یوآن بھی اہمیت رکھتا ہے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ ’یہ
بہت تکلیف دہ امر ہے کہ ماہانہ ایک لاکھ 80 ہزار قدم چلنا ہمارا ہدف ہے جو کہ 30 دن کے حساب سے 6 ہزار قدم یومیہ بنتے ہیں ‘۔ چہل قدمی موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کا علاج ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر تو یہ اتنا زیادہ نہیں لگتا لیکن میرے جیسے افراد کے لیے یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے‘۔ خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ کمپنی کے ہیومن ریسورسز ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں اور اپنے دن کا زیادہ تر حصہ ڈیسک پر گزارتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سب وے اسٹیشن ان کی کمپنی کے قریب قائم ہے جس کی وجہ سے یہ ہدف پورا کرنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب روزانہ چلنے والے قدم کی گنتی کی تو وہ محض ڈھائی ہزار بنے جو کہ یومیہ 6 ہزار قدم چلنے کے ہدف کے نصف سے بھی کم ہے۔ زائیو سی کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھ سکتی ہوں کہ کمپنی چاہتی ہے کہ ان کے ملازمین زیادہ ورزش کریں اور صحت مند ہوں لیکن ہم کام کے اوقات میں نہیں چل سکتے اور ہمیں شام میں اوور ٹائم میں
بھی کام کرنا ہوتا ہے‘۔ روزانہ کچھ دیر چہل قدمی ہارٹ اٹیک سے بچائے ان کا کہنا تھا کہ گھر پہنچ کر رات کا کھانا کھانے تک 9 بج چکے ہوتے ہیں، جس کے بعد روزانہ چلنے کا ہدف ایک اضافی بوجھ ہے اور اس کی وجہ سے نیند کا شیڈول بھی متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کمپنی نے ایک لاکھ 80 ہزار قدم لینے کا ہدف طے کیا تو انہیں یہ چیز مثبت لگی لیکن یہ تو اس سوچ سے زیادہ مشکل ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہدف بہت مشکل ہے جس کے عوض کوئی انعام بھی نہیں ہے‘۔