امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ ذیابیطس کا شکار ہوجائے تو زندگی کافی تلخ محسوس ہوسکتی ہے خصوصاً اگر آپ کو میٹھا کھانا زیادہ پسند ہو۔ تاہم ذیابیطس کے مریضوں کی غذا ضروری نہیں کہ تمام میٹھی اشیاءسے پاک ہو، بلکہ آپ کو غذاﺅں میں گلسیمک انڈیکس (جی آئی) پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ جی آئی ایک پیمانہ ہے کہ جو بتاتا ہے کہ کاربوہائیڈریٹ والی غذا کا کتنا حصہ کھانے کے بعد
اس میں موجود مٹھاس (گلوکوز) مخصوص وقت میں خون میں جذب ہوسکتی ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ کیا ذیابیطس کے مریض گڑ کھا سکتے ہیں؟ کاربوہائیڈریٹس صرف میٹھی اشیاءجیسے شہد، چینی وغیرہ میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ یہ اجناس، نشاستہ دار سبزیوں اور پھلوں میں بڑی مقدار میں ہوتے ہیں۔ امریکن ڈائیبیٹس ایسوسی ایشن کے مطابق ہر کھانے میں ذیابیطس کے مریضوں کو 45 سے 60 گرام کاربوہائیڈریٹ جسم کا حصہ بنانے چاہئے تاکہ بلڈ شوگر کنٹرول کو بہتر بنایا جاسکے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے شہد اچھا متبادل ثابت ہوسکتا ہے؟ شہد میں چینی کی طرح کاربوہائیڈریٹس موجود ہوتے ہیں اور ایک کھانے کے چمچ شہد سے جسم کو 17.3 گرام کاربوہائیڈریٹ ملتا ہے جبکہ ایک چائے کے چمچ میں یہ مقدار 5.8 گرام ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ مقدار بظاہر معمولی لگتی ہے مگر اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ایک وقت میں کتنا شہد کھاتے ہیں۔ ویسے جہاں تک چینی کے متبادل کی بات ہے تو اکثر افراد شہد کو سفید چینی کا صحت مند متبادل سمجھتے ہیں، اگرچہ اس میں مٹھاس زیادہ قدرتی اور کم پراسیس ہوتی ہے مگر اس میں مٹھاس کی شرح اتنی ہی ہے، جتنی چینی میں۔ مثال کے طور پر ایک چائے کے چمچ چینی میں 4.8 گرام کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں اور شہد میں یہ مقدار تو اوپر بتائی جاچکی ہے، مگر کاربوہائیڈریٹس کی مقدار اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب آپ ذیابیطس کے شکار ہوں۔ کیا ذیابیطس کے مریض آم کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ تو شہد ذیابیطس کے مریضوں کے اچھا متبادل ہے یا نہیں، تو اس کا جواب ہے کہ یہ بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق قدرتی اشیاءجیسے پھل یا شہد اور چینی سے بنی اشیاءمیں موجود مٹھاس یکساں ہی ہوتی ہے۔ اگر آپ چینی کی جگہ شہد
سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر یہ مقدار بہت کم ہونی چاہئے، مثال کے طور پر آپ آدھا چائے کا چمچ شہد اپنی چائے میں شامل کرسکتے ہیں یا کسی غذا کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ مقدار بہت کم ہے مگر زبان کی ذائقہ محسوس کرنے والی حس بہت جلد کم مٹھاس سے مطابقت کرلیتی ہے اور کم مقدار میں بھی لطف اندوز ہونے کا احساس دلانے لگتی ہے۔ یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔