آسٹریلیا(مانیٹرنگ ڈیسک)مصنوعی مٹھاس والے مشروبات یا ڈائٹ سافٹ ڈرنکس موٹاپے یا ذیابیطس سے بچاﺅ میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ چینی سے بنے مشروبات سے زیادہ صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ یہ دعویٰ آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ ایڈیلیڈ میڈیکل اسکول کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ محض 2 ہفتے تک مصنوعی مٹھاس کا استعمال ہی معدے
میں موجود بیکٹریا میں تبدیلیاں لانے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے۔ یہ تبدیلیاں جسم کی بلڈشوگر جذب اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو بدل دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران 2 ہفتے تک 29 صحت مند نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کیا جسمانی وزن میں کمی کے لیے ڈائٹنگ اچھا آپشن ہے؟ ان میں سے آدھے نوجوانوں کو مصنوعی مٹھاس کے کیپسول دیے گئے جو مقدار میں دن بھر میں ساڑھے 4 ڈائٹ سافٹ ڈرنکس کے کین کے برابر تھے۔ باقی افراد کو عام کیپسول دیے گئے، جن میں کوئی مٹھاس نہیں تھی۔ محققین نے رضاکاروں کے معدے کے بیکٹریا کا تجزیہ کیا اور جن نوجوانوں نے مصنوعی مٹھاس استعمال کی تھی، ان کے بیکٹریا میں نمایاں تبدیلیاں دریافت کیں جبکہ اس ہارمون کا اخراج کم ہوگیا جو کہ بلڈ گلوکوز لیول کو کنٹرول کرتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ محض 2 ہفتے تک مصنوعی مٹھاس کا استعمال ہی بیکٹریا کو متاثر کرکے ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ اس سے قبل ہاورڈ میڈیکل اسکول کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ڈائٹ یا مصنوعی مٹھاس سے بننے والے مشروبات میں ایسا جز پایا جاتا ہے جو کہ میٹابولک سینڈروم کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور موٹاپے کا امکان ہوتا ہے۔ جن افراد میں میٹابولک سینڈروم ہو انہیں امراض قلب، فالج اور ذیابیطس جیسے امراض لاحق ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔