نیویارک(سی ایم لنکس)درد قولنج اور درد شکم کی مانند دردر شقیقہ بھی ناہیت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ شقیقہ یا باالفاظ دیگر مائیگرین شدید قسم کے سر درد کو کہا جاتا ہے۔جو اس کے مریض کی زندگی کا امن و سکون چھین لیتا ہے۔اگرچہ یہ موروثی مرض ہوتا ہے لیکن ماحول، طرز زندگی،غذا اور ہارمونی عدم توازن بھی اس مرض کو دعوت دینے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
مائیگرین کے مرض میں مبتلا افراد کو اکثر روشنی بری لگتی ہے اور درد کے اوقات میں اندھیرے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔یہ تکلیف سرخ، پیلی اور سفید روشنی سے بڑھ جاتی ہے جب کہ سبز روشنی اس درد کو کم کرتی ہے درد کے ساتھ متلی، قے اور آواز و روشنی سے چڑچڑاہٹ ہوجاتی ہے۔ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی درد میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور زوال آفتاب کے ساتھ اِس کی شدت میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ غروب آفتاب کے ساتھ ہی درد بھی ختم ہوجاتا ہے۔درد شروع ہونے سے قبل مریض کو عام طور پر کمزوری، نقاہت، متلی، سستی و کاہلی اور سر بھاری ہونے کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے چنگاریاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ علامات عموماً طلوع آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ اِس کے بعد کنپٹی، ابرو اور آنکھ کے پیچھے والے حصے میں آہستہ آہستہ درد شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ بڑھ کر تیز ہوتا جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی کنپٹی کی نسیں ابھرتی ہوئی درد ہونے لگتی ہیں۔ عموماً سر درد ایک ہی جانب ہوتا ہے اور بعض اوقات سارے سر میں ہونے لگتا ہے تاہم درد کی شدت سر کے ایک حصے میں غالب رہتی ہے۔ سر چھونے پر گرم محسوس ہوتا ہے۔مریض کے چہرے کی رنگت پھیکی معلوم ہوتی ہے۔ جسم میں کپکپاہٹ آجاتی ہے اور نبض آہستہ چلتی ہے۔ درد کی شدت میں مریض کو متلی اور قے بھی ہونے لگتی ہے اور اِس میں ابتدائی طور پر غذائی مادہ خارج ہوتا ہے اور بعد ازاں فاسد مادہ نکلتا ہے۔
اِنہی فاسد اخلاط کی کثرت جب دماغ پر حاوی ہوتی ہے تو اِس صورت میں شدید قسم کا درد محسوس ہوتا ہے اور اس وقت درد کی شدت آنکھوں اور کنپٹی پر اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ مریض شدت درد سے بے ہوش ہوجاتا ہے۔شقیقہ عام طور پر سن بلوغت کے ابتدائی ایام میں شروع ہوتا ہے اور مردوں کی نسبت خواتین میں بہت زیادہ یہ مرض پایا جاتا ہے۔
ماہرین امراض کے مطابق اکثر بچپن میں صفرا ہونے کے باعث بھی یہ مرض پیدا ہو سکتا ہے لیکن بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے افراد میں یہ مرض بہت کم ہوتا ہے۔ فورٹس ہاسپٹل میں مشیر ڈاکٹر جے دیپ گھوش کا کہنا ہے کہ میٹرو شہروں میں یہ مرض ذہنی تناؤ، کام کا دباؤ، نیند کی کمی،راتوں کو جاگنا میٹر وشہروں میں عام ہے۔جس کا نتیجہ میٹرو کے لوگوں میں یہ مرض کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔
لیکن دواؤں کے علاوہ اگر کھانے پینے اور طرز زندگی میں احتیاط اور نظم و ضبط رکھیں تو اس مرض پر موثر طریقہ سے قابو پایا جاسکتا ہے۔یومیہ 8گلاس پانی پینا، نیند میں باقاعدگی لانا، ذہنی دباؤ کم سے کم لینااور قہوہ یا کافی کا استعمال اس درد سے نجات پانے میں معاونت کرتا ہے۔ہرے پتوں والی سبزیاں خاص طور پر پالک اور بند گوبھی، سیاہ پھلیاں،انجیر، رس بھری،ناشپاتی اور کیلے، سفید چنے(چھولے)،لال لوبیہ، ریشہ دار لوبیا، پھول گوبھی ،سمندری غذاؤں میں سلمن مچھلی،میککیرل مچھلی اور ٹونہ مچھلی،بروکولی (شاخ گوبھی جو انپ کی چھتری نما ہوتی ہے) خرشف اور مارچوب جیسی سبزیاں، بادام، سفید بینس، سویا بین،بے رسیلے پھل مثلاً چیری، ککروندا، ناشپاتی، آلو بخارا،بھی اس مرض کا بہترین علاج ہیں۔