لندن(ویب ڈیسک) یادداشت کی بدولت ہی ہم زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔گلہریاں اور بعض پرندے مہینوں بعد یاد کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی خوراک کس جگہ چھپائی ہے لیکن ہم ایک گھنٹے میں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے چابیاں کہاں رکھی ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ ان کی یادداشت کمزور ہے لیکن دراصل انسان کا دماغ بہت کچھ سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا ہر
شخص کے لئے ممکن ہے۔ انسان کے دماغ کا وزن عام طور پر 3 پونڈ ہوتا ہےاور وہ گریپ فروٹ جتنا بڑا ہوتا ہے۔ دماغ میں ایک کھرب کے لگ بھگ اعصابی خلیے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اکثر ایک خلیہ ایک لاکھ دوسرے خلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے دماغ بہت سی معلومات کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہے۔ البتہ ایسی معلومات کا کوئی فائدہ نہیں اگر ہم ضرورت پڑنے پر اسے یاد نہیں کر پاتے۔ کئی لوگوں کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اور ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔اس سلسلے میں مغربی افریقہ کے قبیلوں کے ان پڑھ تاریخ دانوں پر غور کریں۔ ان کو گریو کہا جاتا ہے‘ انہیں ان تمام لوگوں کے نام معلوم ہیں جو پچھلی کئی پشتوں میں ان کے گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ بات مصنف ایلکس ہیلی کے بڑے کام آئی جن کے پردادا کا تعلق ملک گیمبیا سے ہے۔انہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کے بارے میں ایک ناول لکھا جس کے لئے انہیں انعام ملا۔ وہ گریو تاریخ دانوں کی مدد سے اپنے خاندان کی پچھلی چھ پشتوں تک تحقیق کر پائے۔ ایلکس ہیلی نے کہا ’’میں افریقہ کے گریو کا بہت ہی احسان مند ہوں۔ یہ کہاوت کتنی سچ ہے کہ جب ایک گریو مر جاتا ہے تو ایسا نقصان ہوتا ہے گویا ایک لائبریری جل کر راکھ ہو گئی ہو۔‘‘