کیا خیالی پلاؤ پکانا صحت کے لیے مفید ہے؟

31  اکتوبر‬‮  2017

اسلام آباد(ویب ڈیسک)ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کا وہ حصہ جو ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے، وہی حصہ بغیر سوچے سمجھے خودکار طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

دماغ کے چند مخصوص حصے جنھیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک (ڈی ایم این) کہا جاتا ہے، اس وقت فعال ہو جاتے ہیں جب ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں یا حال کی بجائے ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے معلوم کیا کہ یہی حصہ ہمیں بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے، مثال کے طور پر کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلانا۔توقع ہے کہ اس تحقیق سے دماغی امراض کا شکار افراد کا علاج تلاش کیا جا سکے گا۔اس سے پہلے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ڈی ایم این آرام کی حالت میں زیادہ فعال ہوتا ہے، اور الزہائمرز، سکٹسوفرینیا، اور اے ڈی ایچ ڈی جیسی دماغی بیماریوں میں اس کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔تاہم سائنس دانوں کو اس کی وجوہات کی ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں چل سکا۔سائنس دانوں نے حالیہ تحقیق میں 28 رضاکاروں سے کہا کہ وہ تاش کے ایک پتے (مثال کے طور پر پان کی دُکی)

کو سکرین پر دکھائے گئے چار پتوں سے ملائیں۔اب یہ فیصلہ کرنا ان کا کام تھا کہ آیا انھیں کارڈوں کو ان کے رنگ، نمبر یا شکل کی بنیاد پر ملانا ہے۔ یہ انھیں خود تجربہ کر کے معلوم کرنا تھا۔ اس کے دوران ان کے دماغ کا سکینر کے ذریعے جائزہ لیا جاتا رہا۔جب رضاکار اس کھیل کے اصول سیکھ رہے تھے تو ان کے دماغ کا توجہ دینے والا حصہ زیادہ سرگرم تھا۔ یہ حصہ ایسی معلومات کی جانچ پڑتال کرتا ہے جو زیادہ توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں۔جب رضاکار اصول جان گئے تو ڈی ایم این زیادہ سرگرم ہو گیا۔تحقیق کے مرکزی مصنف ڈینز واٹنسیور کہتے ہیں کہ ڈی ایم این ہمیں اس بات کا پہلے سے اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آگے کیا ہو گا، جس سے ہمیں مسلسل سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔’یہ کسی خودکار نظام یا آٹو پائلٹ کی طرح ہے، جو اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے، تاکہ ہم تیزی سے فیصلے کر سکیں۔’مثال کے طور پر جب آپ صبح کسی جانی پہچانی

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دفتر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ڈی ایم این فعال ہو جاتا ہے، تاکہ ہمیں ڈرائیونگ کے دوران ہر فیصلہ کرتے ہوئے بہت سا وقت اور توانائی صرف نہ کرنی پڑے۔’ڈاکٹر واٹنسیور کہتے ہیں کہ جب ہم کسی انجانے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ‘مینوئل’ موڈ میں آ جاتا ہے، اور خودکار نظام یعنی ڈی ایم این بند ہو جاتا ہے۔اگر دماغ لگاتار کسی چیز پر توجہ دیتا رہے تو وہ جلد ہی تھکاوٹ کا شکار ہو کر کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جاگتے میں خواب دیکھنا یا خیالی پلاؤ پکانے سے دماغ کو کچھ دیر آرام کا موقع مل جاتا ہے تاکہ اگلی بار جب ضرورت پڑے تو دماغ فوراً حرکت میں آ سکے۔ یہ ایسے ہی ہے جب آپ کسی لمبی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو راستے میں چند منٹ کے لیے بیٹھ کر آرام کرنے سے توانائیاں بحال ہو جاتی ہیں۔سائنس دانوں کو توقع ہے کہ ان کی تحقیق سے ایسے دماغی امراض کا علاج کرنے میں مدد ملے گی جن میں

ذہن لگاتار سوچتا چلا جاتا ہے۔ ایسے امراض میں او سی ڈی (بار بار ایک ہی کام دہرائے چلے جانا) اور ڈپریشن شامل ہیں، جن میں مریض مسلسل ایک ہی قسم کی منفی سوچیں سوچتا رہتا ہے۔

موضوعات:



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…