اتوار‬‮ ، 05 اکتوبر‬‮ 2025 

کیا خیالی پلاؤ پکانا صحت کے لیے مفید ہے؟

datetime 31  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(ویب ڈیسک)ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کا وہ حصہ جو ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے، وہی حصہ بغیر سوچے سمجھے خودکار طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

دماغ کے چند مخصوص حصے جنھیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک (ڈی ایم این) کہا جاتا ہے، اس وقت فعال ہو جاتے ہیں جب ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں یا حال کی بجائے ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے معلوم کیا کہ یہی حصہ ہمیں بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے، مثال کے طور پر کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلانا۔توقع ہے کہ اس تحقیق سے دماغی امراض کا شکار افراد کا علاج تلاش کیا جا سکے گا۔اس سے پہلے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ڈی ایم این آرام کی حالت میں زیادہ فعال ہوتا ہے، اور الزہائمرز، سکٹسوفرینیا، اور اے ڈی ایچ ڈی جیسی دماغی بیماریوں میں اس کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔تاہم سائنس دانوں کو اس کی وجوہات کی ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں چل سکا۔سائنس دانوں نے حالیہ تحقیق میں 28 رضاکاروں سے کہا کہ وہ تاش کے ایک پتے (مثال کے طور پر پان کی دُکی)

کو سکرین پر دکھائے گئے چار پتوں سے ملائیں۔اب یہ فیصلہ کرنا ان کا کام تھا کہ آیا انھیں کارڈوں کو ان کے رنگ، نمبر یا شکل کی بنیاد پر ملانا ہے۔ یہ انھیں خود تجربہ کر کے معلوم کرنا تھا۔ اس کے دوران ان کے دماغ کا سکینر کے ذریعے جائزہ لیا جاتا رہا۔جب رضاکار اس کھیل کے اصول سیکھ رہے تھے تو ان کے دماغ کا توجہ دینے والا حصہ زیادہ سرگرم تھا۔ یہ حصہ ایسی معلومات کی جانچ پڑتال کرتا ہے جو زیادہ توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں۔جب رضاکار اصول جان گئے تو ڈی ایم این زیادہ سرگرم ہو گیا۔تحقیق کے مرکزی مصنف ڈینز واٹنسیور کہتے ہیں کہ ڈی ایم این ہمیں اس بات کا پہلے سے اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آگے کیا ہو گا، جس سے ہمیں مسلسل سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔’یہ کسی خودکار نظام یا آٹو پائلٹ کی طرح ہے، جو اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے، تاکہ ہم تیزی سے فیصلے کر سکیں۔’مثال کے طور پر جب آپ صبح کسی جانی پہچانی

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دفتر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ڈی ایم این فعال ہو جاتا ہے، تاکہ ہمیں ڈرائیونگ کے دوران ہر فیصلہ کرتے ہوئے بہت سا وقت اور توانائی صرف نہ کرنی پڑے۔’ڈاکٹر واٹنسیور کہتے ہیں کہ جب ہم کسی انجانے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ ‘مینوئل’ موڈ میں آ جاتا ہے، اور خودکار نظام یعنی ڈی ایم این بند ہو جاتا ہے۔اگر دماغ لگاتار کسی چیز پر توجہ دیتا رہے تو وہ جلد ہی تھکاوٹ کا شکار ہو کر کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جاگتے میں خواب دیکھنا یا خیالی پلاؤ پکانے سے دماغ کو کچھ دیر آرام کا موقع مل جاتا ہے تاکہ اگلی بار جب ضرورت پڑے تو دماغ فوراً حرکت میں آ سکے۔ یہ ایسے ہی ہے جب آپ کسی لمبی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو راستے میں چند منٹ کے لیے بیٹھ کر آرام کرنے سے توانائیاں بحال ہو جاتی ہیں۔سائنس دانوں کو توقع ہے کہ ان کی تحقیق سے ایسے دماغی امراض کا علاج کرنے میں مدد ملے گی جن میں

ذہن لگاتار سوچتا چلا جاتا ہے۔ ایسے امراض میں او سی ڈی (بار بار ایک ہی کام دہرائے چلے جانا) اور ڈپریشن شامل ہیں، جن میں مریض مسلسل ایک ہی قسم کی منفی سوچیں سوچتا رہتا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘


’’بکھری ہے میری داستان‘‘ محمد اظہارالحق کی…

ایس 400

پاکستان نے 10مئی کی صبح بھارت پر حملہ شروع کیا‘…

سات مئی

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق…

مئی 2025ء

بھارت نے 26فروری2019ء کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ…

1984ء

یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…