اسلام آباد(نیوز ڈیسک )برطانیہ میں عمر رسیدہ افراد کے ایک سو سے زائد مراکز کے ایک جائزے کے مطابق ذہنی امراض میں مبتلا لوگ عام آبادی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اتنی زیادہ تمباکو نوشی سے عمر رسیدہ افراد کے ذہنی دباو¿ اور بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ان پر ادویات کے اثرات میں بھی 50 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔انگلینڈ میں صحت عامہ کے ادارے ’پبلک ہیلتھ انگلینڈ‘ نے اپنے اس جائزے کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں تمباکو نوشی پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے لیکن تمباکو نوشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ ’فورسٹ‘ کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض کے مراکز کے مکینوں کو بھی تمباکو نوشی کے وہی حقوق حاصل ہونے چاہییں جو عوام کو حاصل ہیں۔پی ایچ ای کے جائزے کے مطابق ذہنی امراض کے مراکز میں 64 فیصد مریض تمباکو نوشی کے بغیر نہیں رہ سکتے جبکہ عام لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب صرف 14 فیصد ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ذہنی امراض کے شکار افراد عام لوگوں کے مقابلے میں دس سے 20 سال پہلے مر جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ذہنی مریضوں میں زیادہ سگریٹ نوشی ہے۔پی ایچ ای کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی خواہش ہے کہ ذہنی امراض کے شکار لوگوں میں تمباکو نوشی کے موجودہ ناقابلِ قبول رجحان کو کم کیا جائے۔ذہنی امراض کے مراکز کا 25 سال کا تجربہ رکھنے والی ماہر میری ئیٹس کے بقول: ’ان مراکز میں نرسوں کا مریضوں کے لیے سگریٹ خرید کر لانا اور انھیں سگریٹ نوشی کے لیے مرکز سے باہر لے کر جانا معمول کی بات رہی ہے۔ ان مراکز میں مریضوں کو تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہ کرنے کی بجائے انھیں تمباکو نوشی میں مدد کا رجحان زیادہ رہا ہے۔‘تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہی کی بجائے مراکز میں تمباکو نوشی میں مدد کا رجحان زیادہ رہا ہے: میری ئیٹس وہ لوگ جو تمباکو نوشی ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے خلجان اور بے چینی میں کمی آ جاتی ہے، ان کا مزاج بہتر ہو جاتا ہے، خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔‘تمباکو نوشی ترک کر دینے والے کئی مریض میری ئیٹس کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ماضی میں ذہنی امراض کا شکار رہنے والے گیری نیون کہتے ہیں کہ یہ بات سرکاری اداروں کے لیے ’مناسب نہیں ہے‘ کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ہم ہسپتالوں میں اس لیے داخل ہوتے ہیں کہ ہماری صحت بہتر ہو جائے، اور کبھی کبھی آپ سگریٹ پی کر اچھا محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی مجھے بتائے کہ میں سگریٹ نہیں پی سکتا۔ ہم چھوٹے بچے نہیں ہیں۔‘تمباکو نوشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ ’فورسٹ‘ کے سربراہ سائمن کلارک کا کہنا ہے کہ اگر ذہنی امراض میں مبتلا کچھ افراد تمباکو نوشی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو انھیں اس خوشی سے محروم کیوں رکھا جائے۔تمباکو نوشی اور حکومتی اخراجات برطانیہ میں تمباکو نوشی کے بارے میں رائل کالج آف فزیشنز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے گذشتہ عرصے میں عام لوگوں میں سگریٹ نوشی میں واضح کمی کے برعکس ذہنی مریضوں میں تمباکو نوشی کی شرح میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ادارے کے بقول برطانیہ میں تمباکو نوشوں کی تعداد تقریباً 30 لاکھ ہے اور ان میں سے 30 فیصد ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔اس کے علاوہ ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے برطانیہ میں ادویات پر حکومت کو ہر 40 لاکھ پاو¿نڈ اضافی خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ادارے کے مطابق ’ذہنی امراض کے شکار لوگوں میں تمباکو نوشی کی بلند شرح میں اگر کمی کی جا سکے تو نہ صرف حکومت کو سالانہ لاکھوں پاو¿نڈ کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ ان افراد کی صحت اور ان کے معیار زندگی میں بھی نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘لیکن ’فورسٹ‘ کے سربراہ سائمن کلارک کہتے ہیں: ’اگرچہ تمباکو نوشوں کی اکثریت تسلیم کرتی ہے کہ تمباکو نوشی ترک کرنے سے ذہنی دباو¿ اور بے چینی میں کمی آتی ہے لیکن تمباکو نوشی صرف صحت کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر کچھ مریض تمباکو نوشی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو انھیں اس لطف سے کیوں محروم رکھا جائے۔‘پی ایچ ای اس مسئلے کا جو حل تجویز کر رہی ہے وہ تعصب پر مبنی ہے کیونکہ اس تجویز میں ان افراد کو نشانہ بنانے کا کہا جا رہا ہے جو دوسرے لوگوں پر انحصار کرتے ہیں اور ایسے افراد کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ پی ایچ ای کی بات مان لیں اور سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔‘