اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان میں رواں سال پولیو کیسز میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے جس کی وجہ ان علاقوں تک بچوں کو پولیو ویکسین پلانے والے رضاکاروں کی رسائی بتائی جارہی ہے جو عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث ان کی پہنچ سے باہر تھے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یکم جنوری سے صرف 24 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 فیصد کم ہے جب اسی دورانیے میں 84 کیسز سامنے آئے تھے۔پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ابھی بھی وبا کی صورت میں موجود ہے۔ گزشتہ سال ملک میں اس مرض کے 306 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔پولیو ٹیموں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے خطرے کا سامنا رہتا ہے جن کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے ان کی جاسوسی کی جاتی ہے۔دسمبر 2012 کے بعد سے پولیو ٹیموں پر حملوں کے نتیجے میں 78 افراد مارے جاچکے ہیں۔پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے سینئر کوارڈینیٹر الیس ڈوری نے کیسز میں کمی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات سے نتائج حاصل ہورہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پاکستان میں پولیو کیسز میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔پاکستان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘2013 اور 2014 میں پروگرام پر دباو¿ تھا لیکن 2015 میں وائرس پر دباو¿ ہے۔’ڈوری کے مطابق کیسز میں نمایاں کمی کی بڑی وجہ ان علاقوں تک رسائی ہے جہاں پہلے پولیو ٹیمیں پہنچ نہیں پاتی تھیں۔پاکستانی فوج نے گزشتہ سال جون میں شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا تھا جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر ضلعوں میں منتقل ہوئے۔شمالی وزیرستان چھوڑنے والے تمام افراد کو خیبرپختونخوا صوبے میں داخلے سے قبل پولیو کے قطرے پلائے گئے تھے۔ڈوری کا مزید کہنا تھاکہ کراچی میں بھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں۔