اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سن برن کا شکار ہونے والے افراد کے ذہن میں یہ سوال اکثر آتا ہے کہ آخر جانور بھی تو سارا دن دھوپ میں گزاتے ہیں اور وہ بھی عریاں اور بغیر کسی سن بلاک کے استعمال، تو پھر انہیں سن برن کیوں نہیں ہوتا؟ اگر جانوروں کے محفوظ رہنے کی وجہ ان کی جلد پر بالوں کی موٹی تہہ تو مینڈک اور مچھلیوں کے بارے میں کیا جواز دیا جائے گا؟ مانا کہ پانی کسی حد تک الٹرا وائلٹ شعاو¿ں کو جذب کرسکتا ہے تاہم جلد جھلسا دینے والی متعدد اقسام کی شعائیں زیر آب بھی جاسکتی ہیں اورمچھلیوں ا ور مینڈک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں لیکن وہ بھی محفوظ ہی رہتے ہیں۔ یہ سوالات صرف عام لوگوں کو نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی تنگ کرتے تھے سو انہوں نے اس موضوع پر ایک تحقیق کر ڈالی جس میں معلوم ہوا ہے کہ رینگنے والے جانور، مچھلیاں اور ایمفیبیئنز کے اندر قدرتی طور پر ایک مادہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو کہ انہیں سورج کی جھلسا دینے والی شعاو¿ں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس مادے کا نام گیڈیوسل ہے۔ اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا یہ انکشاف بائیولوجی کے ماہرین کیلئے خاصا حیران کن ہے کیونکہ تاحال یہی سمجھا جاتا تھا کہ جانور گیڈیوسل خاص قسم کی کائی اور بیکٹیریا کھا کے حاصل کرتے ہیں۔ جرنل ای لائف میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق تحقیقی ٹیم کے سربراہ طائف محمود کے مطابق ابتدا میں مذکورہ مادہ صرف مچھلیوں کے انڈے میں پایا گیا تھا۔ یہ مادہ الٹرا وائلٹ شعاو¿ں سے بچاتا ہے اور ایک بہترین سن سکرین کا کام کرتا ہے۔یہی نہیں بلکہ یہ ایک بہترین اینٹی آکسیڈنٹ کا کام بھی کرتا ہے، نیز انڈے میں موجود بچے کی نشونما اور دباو¿ کی کیفیت میں بھی یہ مادہ اہم کردار کرتا ہے۔
مزید پڑھئے:جنسی زندگی سے انسان کے قد کا گہرا تعلق ، سائنس کا دعویٰ
سب سے زیادہ خوشی کی خبر یہ ہے کہ ماہرین اس مادے کو خمیر کی مدد سے مصنوعی طور پر پیدا کرنے کے قابل بھی ہوگئے ہیں۔ طائف محمود کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں، اس لئے کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے تاہم پر امید ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب انسانوں کو سن بلاک کی موٹی تہیں جلد پر لگانے کے بجائے اس مادے کے کیپسول کھا کے سن بلاک کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔