اسلام آباد (نیوز ڈیسک )برطانیہ میں قائم سینگر انسٹیٹیوٹ کے مطابق درمیانی عمر کے افراد کی ایک چوتھائی سے زیادہ جلد کینسر کا شکار ہونے کی جانب ابتدائی قدم اٹھا چکی ہے۔55 سے 73 سالہ افراد کے نمونوں کے جائزے میں سامنے آیا کہ جلد کے ہر مربع سینٹی میٹر میں کینسر سے منسلک ایک سو ڈی این اے میوٹیشنز پائی جاتی ہیں۔سینگر انسٹیٹیوٹ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ’حیران کن‘ ہیں۔جلد کا کینسر سب سے عام کینسر میں سے ایک ہے اور ماہرین کے مطابق سورج سے نقصان کے خلاف بہترین دفاع دھوپ کی روک تھام ہے۔سورج کی الٹراوائلٹ ریڈی ایشن جب ہماری جلد سے ٹکراتی ہے تو اسے صحت مند ٹشو سے کینسر کے ٹشو میں تبدیل کر سکتی ہے۔جلد کے کینسر کی نشاندہی کرنے والی میوٹیشن کی کئی اقسام کے بارے میں پہلے سے علم ہے، تاہم سینگر کی ٹیم یہ معلوم کرنا چاہتی تھی یہ میوٹیشن سب سے پہلے کب ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے۔محققین نے چار مریضوں کی پلکوں کی اضافی جلد کا تجزیہ کیا اور پھر جلد کے ڈی این اے کا تفصیلی جائزہ لیا تا کہ کینسر کے سفر کے ابتدائی قدم دکھائی دیں۔سینگر انسٹیٹیوٹ میں کینسر جینیات کے سربراہ، ڈاکٹر پیٹر کیمپبل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کتنے وسیع پیمانے پر، یعنی ایک چوتھائی سے ایک تہائی تک خلیوں میں کینسر کی میوٹیشن پائی جاتی ہیں جو کہ ہماری توقع سے کافی زیادہ ہے۔ لیکن یہ خلیے عام طریقے سے کام کر رہے ہیں۔‘تاہم جس سے پہلے کہ یہ ٹیومر کی شکل اختیار کریں ایک سے زیادہ میوٹیشن کا ہونا ضروری ہے۔ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے میوٹیشن ہونا ضروری ہیں۔ایک سیل کو کئی میٹیشنوں سے گزرنہ ہوتا ہے جس سے پہلے کہ وہ ٹیومر بنے۔تحقیق کے نتائج میں جو ’سائنس‘ نامی جرنل میں شائع ہوئے، یہ بھی سامنے آیا کہ کچھ خلیات جو تھوڑا میوٹیٹ ہوئے ہیں ان کے برتاو¿ میں باریک تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں اور وہ دیگر جلد کے خلیات کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ڈاکٹر کیمپبل کا کہنا ہے کہ ’اس خبر سے شاید میری سورج کی پرستش اثرانداز ہوتی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت ہے۔‘تحقیق کے نتائج ان لوگوں کو خبردار کرتی ہیں جو کینسر کے لیے نئے ادویات تیار کرنے میں مصروف ہیں اور جو اکثر کینسر کو ’منفرد‘ بنانے والی تبدیلیوں پر غور کرتے ہیں۔ڈاکٹر کیمپبل کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ابھی یہ معلومات نہیں کہ کیا عام خلیات میں یہ کینسر والی تبدیلیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ علاج جس سے 20 سے 30 فیصد عام خلیات تباہ ہو جاتے ہیں ممکنہ طور پر کافی اضافی نقصان ہوتا ہے۔‘برٹش ایسوسی ایشن آف ڈرمٹالوجسٹس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر باو شیرگل کے مطابق ’جب کہ جسم کا مدافعتی نظام میوٹیٹڈ سیلز سے نمٹنے کے لیے کافی مو¿ثر ثابت ہو سکتا ہے، یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کچھ خلیات ہٹتے نہیں اور کینسر میں میوٹیٹ ہو سکتی ہیں۔‘کینسر ریسرچ یو کے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایلن وورسلے کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی تحقیق ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہے کہ کون مخصوص غلطیاں ہیں جن سے متاثرہ جلد کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگرچہ ہم سب کو کبھی سورج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سن برن سے جلد کے نقصان سے بچنا چاہیے۔۔۔ جب سورج تیز ہو تو چھاو¿ں میں جانا، زیادہ کپڑوں سے خود کو ڈھانپنا اور کم از کم SPF 15 والی سن سکرین کا استعمال کرنا چاہیے۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں