بدھ‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

آوزاز ”چکھنے “والا انسان

datetime 22  مئی‬‮  2015 |

کہ آواز کو ’ چکھنے‘ کی صلاحیت پڑھائی کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اس کی معاون ثابت ہورہی ہے۔ اس نے دوست بنانے کے لیے اسی خاصیت کو پیمانہ بنالیا تھا۔کسی لڑکے کا نام س±ن کر اس کی زبان پر اگر میٹھا ذائقہ نمودار ہوتا تو وہ اس سے دوستی کرلیتا ورنہ کنارہ کش ہوجاتا۔ جیمز کے مطابق اس کے بیشتر ہم جماعت آلو کے قتلے اور اسٹرابیری جام جیسا ’ ذائقہ‘ رکھتے تھے۔بیشتر بچے باپ کے مقابلے میں اپنی ماﺅں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جیمز بھی باپ پر ماں کو ترجیح دیتا تھا، مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ماں اسے باپ کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتی تھی، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ماں کا نام س±ن کر اسے زبان پر مزے دار آئس کریم کا ذائقہ محسوس ہوتا تھا جب کہ باپ کے نام کا ’ ذائقہ‘ ب±ھنے ہوئے مٹر کے دانوں جیسا تھا۔سائنستھیسیا پر ایڈنبرگ یونی ورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس مرض کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے عام قسم وہ ہے جس میں متاثرہ فرد الفاظ اور اعداد کو رنگوں کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یعنی کوئی مخصوص الفاظ یا عدد س±ن کر اس کے ذہن میں مخصوص رنگ کا تصور ا±بھر آتا ہے۔ جیمز کو لاحق سائنستھیسیا کو طبی اصطلاح میں lexical gustatory synaesthesia کہا جاتا ہے جو اس مرض کی نادر قسم ہے۔ عام فہم زبان میں اسے ’ الفاظ کا ذائقہ‘ کہتے ہیں۔سائنستھیسیا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ایڈنبرگ یونی ورسٹی کی ڈاکٹر جولیا سمنر کے مطابق ماہرین یہ جان چکے ہیں کہ سائنستھیسیا میں مبتلا افراد کے دماغ کی بیرونی جھلی( grey matter) بعض مقامات پر عام لوگوں کے دماغ کی جھلی سے دبیز ہوتی ہے۔جیمز کو سائنستھیسیا کی تشخیص نوجوانی میں ہوئی تھی۔ جیمز کا کہنا ہے کہ دس برس کی عمر میں والدین اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اسکول کے امتحانات کے دوران کلاس میں طالب علموں کی پنسلوں کے گرنے کی آوازیں اس کے منہ میں بے حد کڑوا ذائقہ پیدا کررہی تھیں جس کی وجہ سے اس کے لیے پیپر دینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے والدین کو اپنی مشکل بتائی تو وہ سمجھے کہ زبان میں چھالے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے جیمز کی بات سننے کے بعد کہا کہ یہ کیفیت بڑھتی عمر کا حصہ ہے، اس بچے کی قوت متخیلہ غیرمعمولی ہے جو وقت کے ساتھ نارمل سطح پر آجائے گی۔جیمز کا کہنا ہے بیس برس کی عمر میں، ایم آر آئی کروانے کے بعد ڈاکٹر اس کے مرض کی صحیح تشخیص کرنے میں کام یاب ہوئے۔ ایم آر آئی سے واضح ہوا کہ جیمز کے دماغ کے آواز کو کنٹرول کرنے والے اور ذائقے کااحساس پیدا کرنے والے حصوں کے درمیان ایک اضافی تعلق یا لِنک موجود تھا، جسے ختم کرنا ممکن نہیں۔ان تمام برسوں کے دوران جیمز کو ہم جماعتوں، دوستوں اور عزیزوں کی تنقید بھی سہنی پڑی تھی، جن کا خیال تھا کہ وہ محض توجہ حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہے۔جیمز کا کہنا ہے کانوں میں پڑنے والی آوازیں اس کی زبان پر مختلف ذائقوں کا احساس پیدا کرتی رہتی ہیں۔ کچھ ذائقے چند سیکنڈ اور کچھ کئی گھنٹے تک اس کی زبان پر موجود رہتے ہیں۔ اس کیفیت کی وجہ سے جیمز کے لیے ٹیلی ویڑن دیکھنا یا سنیما جانا ممکن نہیں کیوں کہ آوازوں کا شور اسے ’ ذائقوں کی اذیت‘ میں مبتلا کردیتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)


ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…