ہفتہ‬‮ ، 04 جنوری‬‮ 2025 

آوزاز ”چکھنے “والا انسان

datetime 22  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کہ آواز کو ’ چکھنے‘ کی صلاحیت پڑھائی کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اس کی معاون ثابت ہورہی ہے۔ اس نے دوست بنانے کے لیے اسی خاصیت کو پیمانہ بنالیا تھا۔کسی لڑکے کا نام س±ن کر اس کی زبان پر اگر میٹھا ذائقہ نمودار ہوتا تو وہ اس سے دوستی کرلیتا ورنہ کنارہ کش ہوجاتا۔ جیمز کے مطابق اس کے بیشتر ہم جماعت آلو کے قتلے اور اسٹرابیری جام جیسا ’ ذائقہ‘ رکھتے تھے۔بیشتر بچے باپ کے مقابلے میں اپنی ماﺅں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جیمز بھی باپ پر ماں کو ترجیح دیتا تھا، مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ماں اسے باپ کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتی تھی، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ماں کا نام س±ن کر اسے زبان پر مزے دار آئس کریم کا ذائقہ محسوس ہوتا تھا جب کہ باپ کے نام کا ’ ذائقہ‘ ب±ھنے ہوئے مٹر کے دانوں جیسا تھا۔سائنستھیسیا پر ایڈنبرگ یونی ورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس مرض کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے عام قسم وہ ہے جس میں متاثرہ فرد الفاظ اور اعداد کو رنگوں کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یعنی کوئی مخصوص الفاظ یا عدد س±ن کر اس کے ذہن میں مخصوص رنگ کا تصور ا±بھر آتا ہے۔ جیمز کو لاحق سائنستھیسیا کو طبی اصطلاح میں lexical gustatory synaesthesia کہا جاتا ہے جو اس مرض کی نادر قسم ہے۔ عام فہم زبان میں اسے ’ الفاظ کا ذائقہ‘ کہتے ہیں۔سائنستھیسیا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ایڈنبرگ یونی ورسٹی کی ڈاکٹر جولیا سمنر کے مطابق ماہرین یہ جان چکے ہیں کہ سائنستھیسیا میں مبتلا افراد کے دماغ کی بیرونی جھلی( grey matter) بعض مقامات پر عام لوگوں کے دماغ کی جھلی سے دبیز ہوتی ہے۔جیمز کو سائنستھیسیا کی تشخیص نوجوانی میں ہوئی تھی۔ جیمز کا کہنا ہے کہ دس برس کی عمر میں والدین اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اسکول کے امتحانات کے دوران کلاس میں طالب علموں کی پنسلوں کے گرنے کی آوازیں اس کے منہ میں بے حد کڑوا ذائقہ پیدا کررہی تھیں جس کی وجہ سے اس کے لیے پیپر دینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے والدین کو اپنی مشکل بتائی تو وہ سمجھے کہ زبان میں چھالے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے جیمز کی بات سننے کے بعد کہا کہ یہ کیفیت بڑھتی عمر کا حصہ ہے، اس بچے کی قوت متخیلہ غیرمعمولی ہے جو وقت کے ساتھ نارمل سطح پر آجائے گی۔جیمز کا کہنا ہے بیس برس کی عمر میں، ایم آر آئی کروانے کے بعد ڈاکٹر اس کے مرض کی صحیح تشخیص کرنے میں کام یاب ہوئے۔ ایم آر آئی سے واضح ہوا کہ جیمز کے دماغ کے آواز کو کنٹرول کرنے والے اور ذائقے کااحساس پیدا کرنے والے حصوں کے درمیان ایک اضافی تعلق یا لِنک موجود تھا، جسے ختم کرنا ممکن نہیں۔ان تمام برسوں کے دوران جیمز کو ہم جماعتوں، دوستوں اور عزیزوں کی تنقید بھی سہنی پڑی تھی، جن کا خیال تھا کہ وہ محض توجہ حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہے۔جیمز کا کہنا ہے کانوں میں پڑنے والی آوازیں اس کی زبان پر مختلف ذائقوں کا احساس پیدا کرتی رہتی ہیں۔ کچھ ذائقے چند سیکنڈ اور کچھ کئی گھنٹے تک اس کی زبان پر موجود رہتے ہیں۔ اس کیفیت کی وجہ سے جیمز کے لیے ٹیلی ویڑن دیکھنا یا سنیما جانا ممکن نہیں کیوں کہ آوازوں کا شور اسے ’ ذائقوں کی اذیت‘ میں مبتلا کردیتا ہے۔



کالم



غرناطہ میں کرسمس


ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…