ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ماں ستر برس کی، بیٹی تین برس کی، آپ کو یقین نہیں آیا تو پڑھیں

datetime 1  ‬‮نومبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہریانہ(بھارت) راجو دیوی کی عمر 75 برس کی ہے اور ان کی پہلی اولاد، ان کی بیٹی نوین، پانچ برس کی۔انڈیا میں عورتوں کی اوسط عمر 68 برس ہوتی ہے۔ راجو دیوی کہتی ہیں کہ وہ خوش قسمت تھیں کہ 70 برس کی عمر میں ماں بن گئیں۔راجو دیوی کی عمر کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انڈیا کے دیہی علاقوں میں اکثر تاریخِ پیدائش رجسٹر ہی نہیں کروائی جاتی اور بہت سوں کو تو اپنی عمر ٹھیک طریقے سے معلوم ہی نہیں ہوتی۔ بی بی سی کے مطابق دنیا کی سب بڑی عمر کی ’تصدیق شدہ‘ ماں سپین کی ماریا ڈل کارمن بوساڈا ڈی لارا تھیں جنھوں نے 66 برس کی عمر میں دو جڑواں بچوں کو جنم دیا۔ تین سال کے بعد 69 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔نوین کی ماں شمالی ریاست ہریانہ کے ایک کلینک میں آئی وی ایف (ان۔وٹرو فرٹیلائزیشن) کے ذریعے حاملہ ہوئی تھیں جو ان کے گاؤں کے قریب ہی تھا۔دوسرے بچوں کی طرح نوین بھی کبھی کبھار شرارتی ہو جاتی ہیں اور توجہ چاہتی ہیں۔ لیکن دوسری ماؤں کی طرح راجو دیوی کے لیے اس کے پیچھے بھاگنا بہت مشکل ہے۔ عمر کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا۔سب سے پہلے تو بچہ پیدا کرنے کی تھکاوٹ، اس کے بعد بیضہ دانی میں جھلی نما سسٹ، جس کے بعد انھیں آنتوں کی بیماری بھی لگ گئی۔برطانیہ کے شیفیلڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن پیسے کہتے ہیں کہ 70 کی عمر میں بھی عورتوں کا حاملہ ہونا ممکن ہے اگر آئی وی ایف ڈونر بیضے نوجوان عورتوں کے استعمال کیے جائیں۔’لیکن ماں اور بچے کی صحت کو خطرہ ضرور لاحق ہوتا ہے۔‘سو راجو دیوی نے کیوں اس عمر میں ماں بننے کو ترجیح دی؟ان کا کہنا ہے کہ ’وہ بہت اہم تھا۔‘بچہ پیدا کرنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ جب راجو دیوی شادی کے پندرہ سال بعد بھی حاملہ نہ ہو سکیں تو ان کے شوہر بالا رام نے ان کی چھوٹی بہن سے شادی کر لی۔ لیکن پھر بھی بچہ پیدا نہیں ہوا۔بھاتیری دیوی اور ان کا خاندان بھاتیری دیوی نے 64 برس کی عمر میں تین بچوں کو جنم دیا جن میں سے ایک لڑکی چل بسیاگرچہ انڈیا میں ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا غیر قانونی ہے لیکن پھر بھی لوگ اپنا بائیولیجیکل بچہ یا ’اپنا خون‘ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ وراثت کا مسئلہ بھی تھا۔ بالا رام کہتے ہیں کہ دراصل یہ واحد وجہ تھی کہ وہ بڑی عمر میں بھی آئی وی ایف کے لیے تیار ہوئے۔
’اگر ہم کسی وارث کے بغیر مرتے تو ہماری ساری جائیداد میرے بھائی اور ہمسائے ہڑپ کر جاتے۔‘
بالا رام کے پاس 10 ایکڑ ذرخیز زمین اور دو بھینسیں ہیں۔ وہ سارا سال اپنی زمین پر چاول، گندم، کپاس اور سروسوں اگاتے ہیں اور سالانہ تقریباً 5,000 ڈالر کما لیتے ہیں۔
یقیناً ان کو بیٹا چاہیے تھا جو کہ جائیداد کا وارث بنتا اور خاندان کا نام آگے چلاتا جبکہ لڑکی شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔
لیکن یہ بالا رام کے بس میں نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جب ہماری بیٹی پیدا ہوئی تو ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ راجو دیوی آئی وی ایف اور مزید ایک اور بچہ پیدا کرنے کے لیے بہت کمزور ہیں۔ اس لیے نوین ہماری بیٹی اور بیٹا دونوں ہی ہے۔‘
آئی وی ایف میں آدمی کا سپرم یا نطفہ لے کر اس کی بیوی کے بیضے سے اس کے جسم کے باہر ہی ملایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایمبریو یا جنین عورت کی بچہ دانی میں واپس ڈال دیا جاتا ہے۔
بالا رام کو جب آئی وی ایف کا پتا چلا تو ان کی دونوں بیویاں ہی بیضے پیدا کرنے کی عمر سے آگے نکل چکی تھیں۔
آئی وی ایف
آئی وی ایف علاج میں نطفے اور بیضے کو جسم کے باہر ہی لیبارٹری میں ملایا جاتا ہے
یہی ایک مسئلہ تھا بس۔ سو فیصد اپنا خون نہیں مل سکتا تھا۔ اس لیے بالا رام کے نطفے کو کسی نامعلوم عورت کے بیضے سے ملایا گیا اور راجو دیوی کی بچہ دانی میں ڈال دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اس سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔
راجو دیوی کہتی ہیں کہ اب وہ ایک خوش خاندان ہیں۔
’اب گاؤں والے ہمیں مختلف طریقے سے ملتے ہیں اور جب میں دنیا سے چلی جاؤں گی تو میری بہن بچہ پالے گی۔‘
ڈاکٹر انوراگ بشنوئی ہریانہ میں ایک کلینک چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہر سال تقریباً 1,000 عورتوں کا علاج کرتے ہیں جن میں سی ایک تہائی کی عمر 50 سے 70 سال کے درمیان ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا وقت بھی تھا جب ان سے ملنے ایک ماہ میں سو سے زیادہ جوڑے آتے تھے۔ ’وہ سب بڑی امیدیں لے کر آتے، جو کہ صاف ظاہر ہے کہ ہم ساری پوری نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے پھر احتیاط کے ساتھ چننا اور مریضوں کی تعداد کو کم کرنا شروع کیا۔‘
بھاتیری دیوی 64 سال کی تھیں جب انھوں نے 2010 میں ڈاکٹر بشنوئی سے علاج کروایا۔ ان کو اکٹھے تین بچے پیدا ہوئے جن میں سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ ان کی ایک لڑکی کی موت کچھ ہفتے کے بعد ہی ہو گئی تھی۔
دوسرے بچے اب سکول جانے لگے ہیں۔ بھاتیری دیوی دونوں تین سالہ بچوں کو سکول لے کر جاتی اور واپس لاتی ہیں۔
ان کے شوہر دیوا سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم بے اولاد تھے اور لوگ صبح کے وقت ہمارے چہرے دیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بچے پیدا کرنے کے حوالے سے ان کی قسمت بھی خراب ہو سکتی ہے۔‘
بھاتیری دیوی کی بھی صحت بچہ پیدا کرنے کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، لیکن وہ مانتی نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عورت کا جسم بچہ پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور کوئی بھی عمر ہو یہ آسان کام نہیں ہوتا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…