کراچی (این این آئی)پاکستانی فلمی صنعت گزشتہ تین دہائیوں سے جس زوال کا شکار رہی ہے، اس کے خاتمے کا آغاز 2013 میں شعیب منصور کی فلم ’بول‘ سے ہوا تھا۔ یہ حوصلہ افزا بحالی آج تک جاری ہے اور فلم انڈسٹری کے حالات میں مزید بہتری کی اْمید ہے۔پاکستانی فلم انڈسٹری میں عروج و زوال مجموعی طور پر کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس صنعت میں مسلسل تین
عشروں تک اتار کے بعد چڑھاؤ کا تسلسل 2018 میں بھی خوش آئند طریقے سے جاری رہا۔ پچھلے چند برسوں میں کئی انتہائی کامیاب فلمیں ریلیز کی گئیں، جو باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان میں سے سب سے مشہور اور زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں ‘وار‘، ’میں ہوں شاہد آفریدی‘، فرجاد نبی کی ‘زندہ بھاگ‘، 2014 میں نبیل قریشی کی کامیڈی تھرلر فلم’’نامعلوم افراد‘‘،2015 میں یاسر جسوال کی ‘جلیبی‘، شرمین عبید چنوئے کی ’’تین بہادر‘‘، مومنہ دورید کی ’’بن روئے‘‘، ندیم بیگ کی ’’جوانی پھر نہیں آنی‘، جامی کی’مور‘ اور سرمد گھوسٹ کی’’منٹو‘‘ شامل ہیں۔2016 میں عاصم رضا کی ’’ہو من جہاں‘‘، اظہر جعفری کی ’’جاناں‘‘، نبیل قریشی کی ’’ایکٹر ان لا‘‘، عاشر عظیم کی ’’مالک‘‘، 2017 میں ندیم بیگ کی’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘، شعیب منصور کی ’’ورنہ‘‘ اور فرحان اسلم کی ’’ساون‘‘ بھی خاص طور پر قابل ذکر رہیں۔ 2018 بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے ایک اچھا سال رہا، جس دوران کئی فلمیں نہایت کامیاب رہیں اور ان پروڈکشنز نے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے کے علاوہ متاثر کن کاروبار بھی کیا۔