سینئر تجزیہ کار اور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے آج کے کالم ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔لطیفہ تو کافی پرانا ہے مگر کردار اور واقعات نئے ہیں۔ ایک سکھ سردار مے نوشی کرتے کرتے اتنے ماہر ہو گئے کہ وہ شراب سونگھ کر یا اس کا ذائقہ چکھ کر بتا دیتے تھے کہ یہ کونسی شراب ہے، اس کا نام کیا ہے اور برانڈ کون سا ہے۔ دوست احباب تو سب ان کی مہارت کو مانتے تھے مگر ایک مہمان نے انہیں چیلنج کر دیا۔ مہمان کمرے میں گیا۔
اپنے بیگ سے تین چار مختلف برانڈز نکالے، انہیں مکس کیا اور سردار صاحب کے سامنے جام رکھ کر پوچھا:اب بتائو یہ کونسی شراب ہے؟ سردار صاحب نے جام اٹھایا، اسے سونگھا، دوستوں کی طرف دیکھا اور پھر جام اٹھا کر اس کا ذائقہ چکھا۔ سب منتظر تھے کہ ابھی سردار صاحب ہمیشہ کی طرح نام بتا دیں گے لیکن سردار صاحب سوچ میں گم ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر ناکامی کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی کہا:یہ جو بھی برانڈ ہے، جس بھی کمپنی نے اسے بنایا ہے، اسے اطلاع کر دو کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ تحریک انصاف کی دیگ کے تین دانے‘ اسد عمر، عثمان بزدار اور محمود خان کے بارے میں چکھ کر ہی پتا چل گیا ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ اگر یہ تین دانے دیگ سے نہ نکلے تو ساری دیگ کا ذائقہ خراب ہو گا اور کپتان خان ایک مشکل سے دوسری مشکل میں پھنستے چلے جائیں گے۔ اسد عمر پڑھے لکھے اور قابل ہیں لیکن فیصلوں کی ٹائمنگ میں غلطی کھا گئے۔ آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو معاشی بحران ٹل سکتے تھے۔ کپتان کی ٹیم کہتی ہے کہ اسد عمر کا متبادل کوئی نہیں، اسی کو چلانا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کپتان خان کی زبردست حمایت کے باوجود ٹیک آف نہیں کر پا رہے۔ مسلم لیگ (ق) کے وزیر عمار یاسر ناراض ہیں، عبدالعلیم خان شکایات کا دفتر لے کر کپتان کے پاس گئے، انہوں نے راجہ بشارت، عثمان بزدار اور علیم خان کو بلا کر صلح کروا دی۔ علیم خان کو وزارتِ منصوبہ بندی کی اضافی ذمہ داری دے ڈالی اور کہا کہ آپ ایک ٹیم کی طرح کام کریں۔ علیم خان فی الحال خاموش ہو گئے، لیکن کیا وہ آئندہ بھی خاموش رہیں گے، فی الحال اس پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس خاموشی کے پیچھے طوفان چھپا ہوا ہے۔
انتہائی قابل اور دانش مند ٹاپ بیورو کریٹ ڈھائی ماہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ان کی وزیراعلیٰ سے الگ سے ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، اس لئے بڑے بڑے فیصلے رکے ہوئے ہیں۔ بزدار انتہائی شریف اور شرمیلے ہیں، ابھی تک ایک انٹرویو نہیں دیا۔ کپتان خان کو جب غیر سویلین حلقوں سے پنجاب میں کوئی کام نہ ہونے کی رپورٹس ملیں تو انہوں نے اس ٹاپ بیورو کریٹ کو بلا کر بریفنگ لی۔ انہوں نے بھی دل کھول کر سامنے رکھ دیا۔ بزدار صاحب ملنے میں بہت اچھے اور عاجز ہیں، دوچار ملاقاتی ہوں تو گفتگو بھی اچھی کر لیتے ہیں۔
لیکن ماحول کچھ ایسا ہے کہ بیورو کریسی احتساب کے نظام سے ڈر کر قلم چھوڑ پالیسی اپنا چکی ہے، وہ کوئی پہل کرنے، حکم دینے یا آگے بڑھنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ یوں سارے کام ٹھپ ہیں۔ملک اور صوبے میں کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب پالیسی سازی ہوتی ہے اور ترقیاتی کام کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ آدھے سے زیادہ کم کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال کے خاتمے پر صوبے بھر کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی نظر آئیں گی اور اگر ہائوسنگ پروجیکٹ شروع نہ ہوا تو تعمیر و ترقی کا کام بالکل بیٹھ جائے گا۔
عثمان بزدار وزیراعلیٰ کیسے بنے، ان کا پسماندہ ضلع سے ہونا ان کے چنائو کی وجہ تھا یا ان کا نام مٹی کے گھڑے میں سے قرعہ نکالنے سے فائنل ہوا، ان کی مخفی صلاحیتیں انہیں آگے لانے کی وجہ بنیں یا ان کی سادگی کپتان خان کو پسند آ گئی، معاملہ کچھ بھی ہو‘ یہ بہرحال طے ہے کہ بزدار صاحب صرف اور صرف بنی گالہ کی چوائس تھے۔ اس میں اصلی سرکار کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اب اصلی سرکار بھی شش و پنج میں ہو گی کہ آگے کام کیسے چلے گا۔
کسی مخلص نے کپتان خان کو تین ہیروں کو ہٹانے اور ان کی جگہ مناسب لوگ لانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اپنے فیصلوں کا دفاع کیا اور کہا کہ جلد ہی یہ ہیرے چمکیں گے، تھوڑا صبر کر لیں۔ اصلی سرکار منتظر ہے کہ اب یہ کام کب ٹھیک ہوں گے۔دوسری طرف پنجاب میں کوئی بھی خوش نظر نہیں آ رہا۔ گورنر چوہدری سرور کو اس یقین دہانی کے ساتھ عہدہ دیا گیا تھا کہ صوبے میں پانی کی فراہمی آپ کی ذمہ داری ہو گی مگر انہیں ایسا کوئی اختیار نہیں ملا، جس کے بعد سے انہوں نے سرور فائونڈیشن کے نام سے پرائیویٹ این جی او کے تحت آر او پلانٹ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔
اگر انہیں اختیار مل جاتا تو وہ یہی کام حکومت پنجاب کے لئے کرتے۔ چوہدری سرور دل کی بات چھپا نہیں سکتے مگر اس بار وہ چپ ہیں۔ ماضی میں وہ اپنے اوپر دبائو کو ردعمل دے کر ہٹا دیتے تھے مگر ان کی غیر معمولی خاموشی کہیں انہیں بیمار ہی نہ کر دے۔ چوہدری پرویز الٰہی سیاسی شطرنج کے ماہر ہیں، انہیں پتلیاں نچانا خوب آتا ہے۔ ان کے دستِ راست عمار یاسر کا استعفیٰ ہلکی سی چنگاری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چنگاری ابھی بجھا لی جائے لیکن اگر اس کے اطراف میں آگ بھڑک اٹھی تو کیا پنجاب اور کیا مرکز‘ سب میں عدم استحکام آ جائے گا۔
عثمان بزدار دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں، سب کی عزت کرتے ہیں، کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لئے شاید بڑے فیصلے بھی نہیں کر پاتے۔ اقتدار فیصلے کرنے کا نام ہے۔ محمد شاہ رنگیلا پوری مغلیہ شان و شوکت اور رعب والا بادشاہ تھا، مگر کمزوری صرف ایک تھی کہ فیصلہ نہیں کر پاتا تھا۔ افغان حکمران بچہ سقہ نے بھی چند دن خوب گزارے مگر کوئی فیصلہ نہ کیا۔ بزدار ان سب سے بہتر ہیں مگر فیصلہ کرنے کی صلاحیت، شرمیلا پن اور غور و فکر سے بالاتر عادت انہیں مضبوط نہیں ہونے دے رہی، نہ ان کے اردگرد کوئی دانش مند ٹیم ہے۔
سوائے پڑھے لکھے پرنسپل سیکرٹری کے، ان کے اردگرد خوشامدی اور حواری جمع ہیں جو وزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ کسی کو بھی کارکردگی دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اوورسیز کے معاملات نمٹانے کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا معاملہ ہو، فروٹ اور سبزی منڈیوں کے چیئرمینوں کا تقرر ہو، بلدیاتی نظام کی تشکیل کی بات ہو، ہر معاملے کی فائل اقتدار کی راہداریوں میں فیصلے کی منتظر ہے۔ اگر حکومتی کمپنی نے اپنے معاملات درست نہ کیے، اپنے نایاب دانوں کو کامیاب نہ بنایا یا اپنی ٹیم میں تبدیلی نہ کی تو پھر اس پرانے لطیفے کی طرح یہ کہا جائے گا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔