اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان میں بین الاقوامی سطح پر معروف درجنوں کمپنیوں کی سرگرمیوں میں شدید کمی یا مکمل انخلا کے حوالے سے سنجیدہ خدشات جنم لینے لگے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق، جولائی 2025 میں مائیکروسافٹ نے تقریباً پچیس برس بعد پاکستان میں اپنا دفتر بند کرنے کا اعلان کیا، جو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے ماحول پر سوالیہ نشان ہے۔مائیکروسافٹ، جو سن 2000 کے اوائل سے پاکستان میں سرگرم تھی، نے مقامی سطح پر سافٹ ویئر، لائسنسنگ اور ڈیجیٹل مہارتوں کے فروغ میں کردار ادا کیا، تاہم اب خاموشی سے اپنے محدود عملے کو فارغ کرتے ہوئے آپریشن مکمل بند کر دیا ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ فیصلہ عالمی سطح پر تنظیم نو اور خطے میں تکنیکی ترقیاتی سمت کی تبدیلی کا حصہ ہے۔ لیکن ماہرین اسے بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے پاکستان کی کاروباری فضا میں بگاڑ کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں دو درجن سے زائد بڑی غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں اپنی سرگرمیاں محدود یا مکمل طور پر بند کر چکی ہیں۔ ان میں توانائی، خوراک، ٹیکنالوجی اور صارفین کی مصنوعات سے وابستہ معروف برانڈز جیسے شیل، پراکٹر اینڈ گیمبل، لوٹے، سیمنز انرجی، یونی لیور (لپٹن ڈویژن) اور ریکٹ بینکیزر (ہیلتھ یونٹ) شامل ہیں۔ان کمپنیوں کی موجودگی صرف سرمایہ کاری تک محدود نہیں تھی، بلکہ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی، انتظامی مہارت اور بین الاقوامی کارپوریٹ ثقافت کا تجربہ پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مقامی کاروباری ماحول اور افرادی قوت نے ان اداروں سے تربیت اور تجربہ حاصل کیا، جو اب ناپید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق، ان کمپنیوں کے انخلا کی ایک بڑی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں تیز گراوٹ ہے، جس نے 2021 سے اپنی آدھی سے زیادہ قدر کھو دی ہے۔
اس کے نتیجے میں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے منافع حاصل کرنا اور واپس بھیجنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی، سٹیٹ بینک کی جانب سے منافع کی منتقلی پر سخت زرمبادلہ کنٹرولز نے صورتحال مزید پیچیدہ بنا دی۔رپورٹ کے مطابق، 2023 میں کمپنیاں ایک ارب ڈالر سے زائد بلاک شدہ ڈیویڈنڈز کی کلیئرنس کے منتظر تھیں۔ ایسے حالات میں کمپنیوں کو مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ان کی بیلنس شیٹس متاثر ہوئیں۔اس کے ساتھ ساتھ غیر یقینی معاشی پالیسیوں، بار بار بدلتے ٹیکس قوانین، ریگولیٹری دباؤ اور پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی کمی نے بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ بعض کمپنیوں کو ٹیکس اور درآمدی پالیسیوں میں اچانک تبدیلیوں کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، جس سے ان کی کاروباری منصوبہ بندی بری طرح متاثر ہوئی۔بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں اقتصادی فیصلوں میں تسلسل کی کمی اور غیر منتخب اداروں کے بڑھتے ہوئے اثر کو کاروبار کے لیے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔