اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کردیا ہے جس کے مطابق پاکستان نے ختم ہونے والے مالی سال کیلئے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا،صنعتی شعبہ سب سے زیادہ متاثرہوا،3فیصد تک سکڑ گیا،
پاکستان میں جولائی 2022سے مئی 2023تک کے 11ماہ کے عرصے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی،حکومت نے مالی سال 2023 کیلئے مہنگائی کا ہدف 11.5 فیصد رکھا تھا،روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، درآمدات مہنگی ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹ کی وجہ سے ہدف ہاتھ سے نکل گیا،
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہوگئی،ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی، جولائی سے مارچ کے دوران پاکستان کی برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا،
ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ میں 6 ہزار 400 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی،معیشت میں جو گراوٹ ہورہی تھی وہ رک چکی ہے،ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے،اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے،اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے،وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے،
بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے، عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا،عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا،پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں،
جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا،جو آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا،نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو رجحان پلٹ گیا،لوگ ڈالر اور سونے میں اپنی رقم محفوظ نہ کریں، اس کا فائدہ نہیں ہو گا،ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے جنہیں ہمیں دور کرنا اور ہم کررہے ہیں، اللہ نے چاہا تو یہ خودبخود بہتر ہوگی۔ جمعرات کو یہاں اپنی ٹیم کے ہمراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کرتے ہوئے کہاکہ اقتصادی سروے کا موضوع برآمدات، ایکویٹی، ایمپاورمنٹ، ماحولیات اور توانائی ہے۔
انہوں نے بتایا اقتصادی سروے 17 ابواب پر مشتمل ہے جس کا مقصد گزشتہ چند برسوں میں ہوئی پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کو واپس ترقی کی جانب لے جانا ہے۔وزیر خزانہ کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، 2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی،سب سے زیادہ قابل ذکر کمی صنعتی شعبے کا 2.94 فیصد سکڑاؤ تھا، جو کہ 7.1 فیصد ترقی کے ہدف کے مقابلے میں تھا۔
دستاویزات کے مطابق پاکستان میں جولائی 2022 سے مئی 2023 تک کے 11 ماہ کے عرصے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی۔حکومت نے مالی سال 2023 کیلئے مہنگائی کا ہدف 11.5 فیصد رکھا تھا تاہم روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، درآمدات مہنگی ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹ کی وجہ سے یہ ہدف ہاتھ سے نکل گیا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہوگئی،ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی۔
گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے 12 ماہ کی مدت کے لیے وصولی کا ہدف 74 کھرب 70 ارب روپے رکھا گیا تھا۔سروے دستاویز کے مطابق جولائی سے مارچ کے دوران پاکستان کی برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں۔دریں اثنا اسی مدت کے دوران درآمدات 43 ارب 70 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 58 ارب 90 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 25.7 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں،یہ کمی بنیادی طور پر پالیسی میں سختی اور دیگر انتظامی اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ حکومت اپنے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی،
اس کے نتیجے میں ملک کا تجارتی خسارہ نمایاں طور پر سکڑ کر جی ڈی پی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.4 فیصد تھا۔دستاویزات کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ بلینس میں 74.1 فیصد بہتری آئی جس نے جولائی تا مارچ مالی سال 2023 کے دوران 3.4 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا جبکہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران خسارہ 13 ارب ڈالر تھا،اس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد تک سکڑ گیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 4.7 فیصد تھا۔دستاویز کے مطابق اس بہتری کے پیچھے اہم عنصر تجارتی خسارے میں 29.7 فیصد کمی تھی جو درآمدی ادائیگیوں میں جولائی تا مارچ میں 41.5 ارب ڈالر تک کمی سے ہوا اور گزشتہ سال یہ ادائیگیاں 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تھیں۔
سروے میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 3.6 فیصد تک روک دیا گیا جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھا۔سروے میں کہا گیا کہ یہ اخراجات کے محتاط انتظام اور مقامی وسائل کو متحرک کرنے کی ایک مؤثر حکمت عملی پر سختی سے عمل کرنے سے حاصل ہوا۔سروے کے مطابق بجلی، گیس پانی کی فراہمی سمیت انڈسٹری کے ذیلی شعبوں میں شرح نمو 6 فیصد رہی، ہول سیل اور ریٹیل تجارت کی شرح نمو منفی 4.46 فیصد رہی، ہول سیل اور ریٹیل تجارت پچھلے سال 10.3فیصد تھی، ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے شعبے میں ترقی کی شرح 4.73 فیصد رہی۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ رہائش اور خوراک کے شعبے میں ترقی کی شرح 4.11 فیصد رہی، آئی ٹی اور ٹیلی کام میں ترقی کی شرح 6.93 فیصد رہی، اس سال معیشت کے حجم میں 27.1 فیصد اضافہ ہوا، معیشت کا حجم 84 ہزار 658 ارب روپے رہا، فی کس سالانہ آمدن 1568ڈالر رہی، فی کس سالانہ آمدن پچھلے سال 1765 ڈالر تھی۔اس موقع پر وزیرخزانہ نے کہا کہ ملک 2017 میں مثبت سمت میں جا رہا تھا مگر چار سالہ اقتدار نے بری حالت کر دی، 2017 میں پاکستان کی معیشت دنیا کی 24 ویں معیشت بن چکی تھی، 2022 میں پاکستان کی معیشت بدقسمتی دنیا کی 47 ویں معیشت بنی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈارنے کہا کہ اگر یہ حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا کیونکہ ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ میں 6 ہزار 400 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔انہوں نے کہاکہ معیشت میں جو گراوٹ ہورہی تھی وہ رک چکی ہے اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سال 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ سال جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 2018 میں 30.9 ارب ڈالر سے گزشتہ سال 39.1 ارب ڈالر جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے 17.5 ملین ڈالر تک جا پہنچا،
غیر ملکی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے سکڑ کر 1.9 ارب ڈالر رہ گئی اور پبلک پالیسی ریٹ 6.5 فیصد سے پونے 14 فیصد ملا۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرض ہر سال 129 ارب روپے کے حساب سے بڑھ رہا تھا جو 2018 میں 1148 ارب چار سال کی قلیل مدت میں 2 ہزار 467 ارب تک جا پہنچا یعنی اس میں 330 سالانہ اضافہ ہوا۔انہوں نے بتایا کہ سال 2018 میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 63.7 فیصد تھا وہ 73.9 فیصد تک جا پہنچا جو بہت بڑا اضافہ ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے جبکہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کی وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سب کچھ کے بعد تابوت میں آخری کیل جو ثابت ہوئی اس نے پاکستان کے بھروسے اور ساکھ کو متزلزل کر کے رکھ دیا، اگر آپ نے کوئی خود مختار وعدہ کیا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا ہوتا ہے اور ہمیں اسی طرح پورا کرنا چاہیے تاہم جب دیکھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں تو وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ انہیں ریورس کردیا جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے،
عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی تعمیر نو کیلئے 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کا نصف ہم خود پورا کریں گے تاہم دوحہ میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں ہماری توقع سے زیادہ امداد کے وعدے کیے گئے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 2019 کا آئی ایم ایف پروگرام 2023 میں ختم ہونا چاہیے تھا،
اس کے علاوہ ہم نے پوری کوشش کی اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی، اتنی مشکل اصلاحات مینڈیٹ لے کر آنے والی نئی حکومت تو کر سکتی ہے لیکن ایک حکومت جس کو پتا ہو کہ اس کے پاس 14 ماہ ہیں اس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہمیں خاصے تکلیف دہ اقدامات اٹھانے پڑے ہم ایک وچ سائیکل میں پھنس چکے ہیں جب کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا لیکن جو کہ آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا لیکن نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو یہ رجحان پلٹ گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے جنہیں ہمیں دور کرنا اور ہم کررہے ہیں، اللہ نے چاہا تو یہ خودبخود بہتر ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ کا کمزور تاثر بنا ہوا ہے اور ہماری حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ واجبات کو وقت پر ادا کردیا جائے باقی تمام کاروبار اس کے بعد ہوں گے۔اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس سال ترقیاتی بجٹ کو گیارہ سو ارب سے بھی زیادہ کیا، ترقیاتی بجٹ میں ملکی تاریخ میں پہلی بار سو فیصد اضافہ کیا، ہمیں اس سال تین غیر مثالی حادثات کا سامنا کرنا پڑا، اول یہ کہ بڑے پیمانے پر درآمدات کی گئیں، دوم آخری سہ ماہی میں وزارت خزانہ نے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا اور سوم یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔احسن اقبال نے کہا کہ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا تجارتی خسارہ کسی حکومت کو نہیں ملا اس لئے اس اقتصادی سروے کا اعداد و شمار اور اہداف سے کوئی تعلق نہیں ہے، پچھلی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کو نشانہ بنایا اور ہم نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 131 فیصد اضافہ کیا۔