ہفتہ‬‮ ، 19 اپریل‬‮ 2025 

وزارت تجارت خوردنی مصنوعات کی فوری کلیئرنس کے احکامات جاری کرے : میاں زاہد حسین

datetime 28  مارچ‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ وزارت تجارت کی جانب سے فروری میں SRO-237کے ذریعے امپورٹ پالیسی آرڈر2016میں ترامیم کی گئی ہیں جن میں خوردنی مصنوعات پر حلال کا لیبل چسپاں ہونا اور انگریزی اور اردو زبان میں مصنوعات کی

تفصیل درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے، جو یقیناًصارفین کے مفاد میں ایک اہم قدم ہے لیکن درآمدہ خوردنی مصنوعات امپورٹ پالیسی آرڈر 2016کے تحت درآمد کی گئی ہیں جس کے تحت مصنوعات پر حلال لیبل اور مصنوعات کی اجزاء کی تفصیل اردو اور انگریزی میں لکھا ہونا ضروری نہیں تھا ۔ حالیہ SRO-237جو 19فروری 2019کو جاری ہوا اس میں غذائی اجناس پر حلال لیبل، حلال سرٹیفیکیشن اور اجزاء کی تفصیل کا اردو اور انگریزی میں درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جوامپورٹ شدہ مصنوعات پردرج نہیں ہیں اسلئے ان اشیاء کی کلیئرینس کسٹم کی جانب سے روک دی گئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد نے اس بات کاوعدہ کیا تھا کہ مذکورہ SROیکم جولائی 2019سے نافذالعمل ہوگا تاہم مذکورہ SROمیں تاریخ نفاذسے متعلق ترمیم ابھی تک نہیں کی گئی جس کی وجہ سے درآمدکنندگان اور خورنی اشیاء کے کاروبار سے وابستہ افراد کو بے جا پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔درآمدہ خوردنی مصنوعات کی کلیئرینس میں تاخیر کے باعث درآمدکنندگان کوامپورٹ ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ڈیٹینشن اور ڈیمریج چارجزکی بھی ادائیگی کرنی پڑے گی جس سے ان مصنوعات کی درآمدی لاگت میں اضافہ ہوگا اور آخرکار یہ مصنوعات صارفین کو مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی جو عوام پر بے جا بوجھ کے مترادف ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت تاجران اور درآمدکنندگان کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے SRO-237کا نفاذ جولائی تک مؤخر کرے اور مذکورہ SROکے باعث درآمدہ خوردنی مصنوعات کی کلیئرینس میں جس تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے ازالے کے طور پر اضافی ڈیٹینشن اور ڈیمریج چارجز معاف کئے جائیں اور خورنی مصنوعات کی

جلد از جلد کلیئرینس کو یقینی بنانے کے احکامات صادر کئے جائیں تاکہ درآمد کنندگان کی پریشانی ختم ہوسکے اور پہلے سے درآمدہ خورنی مصنوعات کسٹم سے کلیئر ہوسکیں۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ مذکورہ SROکے فوری نفاذ سے امپورٹ پالیسی آرڈر2016کے تحت درآمد کئے گئے

مختلف پورٹس پر سینکڑوں کنٹینرز کی کلیئرینس کو تاخیرکا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے ملک میں مذکورہ خوردنی اشیاء کی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کاروباری آسانی کے حوالے سے دنیا میں پہلے ہی 136ویں نمبر پر ہے جس پر متزاد ایسی قانونی رکاوٹیں جو کاروباری ماحول کومزید مشکلات کا شکار کردیں غور طلب ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ معیشت

صنعت و تجارت کے حوالے سے نئے قانون یا موجودہ قوانین میں ترمیم کے لئے بزنس کمیونٹی کی نمائندگی اور شرکت کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ حکومت اور تاجر اتفاق رائے سے دور رس قوانین اور پالیسیاں مرتب کرسکیں جس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ حکومت نے امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترمیم کے وقت درآمد کنندگان اور بزنس کمیونٹی کو یکسر نظر انداز کیا ہے جو قابل افسوس ہے۔

موضوعات:



کالم



اگر آپ بچیں گے تو


جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…