وزارت تجارت خوردنی مصنوعات کی فوری کلیئرنس کے احکامات جاری کرے : میاں زاہد حسین

28  مارچ‬‮  2019

کراچی(این این آئی)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ وزارت تجارت کی جانب سے فروری میں SRO-237کے ذریعے امپورٹ پالیسی آرڈر2016میں ترامیم کی گئی ہیں جن میں خوردنی مصنوعات پر حلال کا لیبل چسپاں ہونا اور انگریزی اور اردو زبان میں مصنوعات کی

تفصیل درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے، جو یقیناًصارفین کے مفاد میں ایک اہم قدم ہے لیکن درآمدہ خوردنی مصنوعات امپورٹ پالیسی آرڈر 2016کے تحت درآمد کی گئی ہیں جس کے تحت مصنوعات پر حلال لیبل اور مصنوعات کی اجزاء کی تفصیل اردو اور انگریزی میں لکھا ہونا ضروری نہیں تھا ۔ حالیہ SRO-237جو 19فروری 2019کو جاری ہوا اس میں غذائی اجناس پر حلال لیبل، حلال سرٹیفیکیشن اور اجزاء کی تفصیل کا اردو اور انگریزی میں درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جوامپورٹ شدہ مصنوعات پردرج نہیں ہیں اسلئے ان اشیاء کی کلیئرینس کسٹم کی جانب سے روک دی گئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد نے اس بات کاوعدہ کیا تھا کہ مذکورہ SROیکم جولائی 2019سے نافذالعمل ہوگا تاہم مذکورہ SROمیں تاریخ نفاذسے متعلق ترمیم ابھی تک نہیں کی گئی جس کی وجہ سے درآمدکنندگان اور خورنی اشیاء کے کاروبار سے وابستہ افراد کو بے جا پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔درآمدہ خوردنی مصنوعات کی کلیئرینس میں تاخیر کے باعث درآمدکنندگان کوامپورٹ ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ڈیٹینشن اور ڈیمریج چارجزکی بھی ادائیگی کرنی پڑے گی جس سے ان مصنوعات کی درآمدی لاگت میں اضافہ ہوگا اور آخرکار یہ مصنوعات صارفین کو مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی جو عوام پر بے جا بوجھ کے مترادف ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت تاجران اور درآمدکنندگان کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے SRO-237کا نفاذ جولائی تک مؤخر کرے اور مذکورہ SROکے باعث درآمدہ خوردنی مصنوعات کی کلیئرینس میں جس تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے ازالے کے طور پر اضافی ڈیٹینشن اور ڈیمریج چارجز معاف کئے جائیں اور خورنی مصنوعات کی

جلد از جلد کلیئرینس کو یقینی بنانے کے احکامات صادر کئے جائیں تاکہ درآمد کنندگان کی پریشانی ختم ہوسکے اور پہلے سے درآمدہ خورنی مصنوعات کسٹم سے کلیئر ہوسکیں۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ مذکورہ SROکے فوری نفاذ سے امپورٹ پالیسی آرڈر2016کے تحت درآمد کئے گئے

مختلف پورٹس پر سینکڑوں کنٹینرز کی کلیئرینس کو تاخیرکا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے ملک میں مذکورہ خوردنی اشیاء کی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کاروباری آسانی کے حوالے سے دنیا میں پہلے ہی 136ویں نمبر پر ہے جس پر متزاد ایسی قانونی رکاوٹیں جو کاروباری ماحول کومزید مشکلات کا شکار کردیں غور طلب ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ معیشت

صنعت و تجارت کے حوالے سے نئے قانون یا موجودہ قوانین میں ترمیم کے لئے بزنس کمیونٹی کی نمائندگی اور شرکت کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ حکومت اور تاجر اتفاق رائے سے دور رس قوانین اور پالیسیاں مرتب کرسکیں جس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ حکومت نے امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترمیم کے وقت درآمد کنندگان اور بزنس کمیونٹی کو یکسر نظر انداز کیا ہے جو قابل افسوس ہے۔

موضوعات:



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…