لاہور(این این آئی )ماہرین معاشیات نے کہا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے چین اور سعودی عرب سے قرضہ آئی ایم ایف کا متبادل نہیں ،قرض لینے کے حکومتی فیصلے سے ہر شعبے پر اثرات مرتب ہوں گے ،جہاں سے ریکوری ہو سکتی ہے حکومت نے
ابھی تک وہاں ہاتھ نہیں ڈالا، حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے ۔ پائیدار ترقی پالیسی کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہورہی ہے جن کومستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ حکومت ایک ماہ قبل ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ آئی ایم ایف کی شرائط وہی ہیں جو 1988ء میں تھیں اور حکومت نے ان پر عملدرآمد شروع بھی کردیا ہے جن کے اثرات سامنے آئیں گے۔ موجودہ حکومت کی بھی وہی پالیسیاں ہیں جو 30قسال بل تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اگلے تین سال مہنگائی بڑھے گی ،گروتھ اس سال ہی نہیں بلکہ اگلے سال بھی کم رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو حکومت کو دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بھی جانا ہے ۔ ملک میں جو صورتحال 2008میں تھی وہی 2013ء میں تھی اور 2023ء میں بھی ہم اسی طر ف جارہے ہیں۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے کہا کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔