کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) حکومتِ پاکستان کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کی قیمت 100 روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت سنبھالنے کے بعد گیس کے نرخ میں 40 فیصد اضافہ کیا جس کے بعد اس کے نرخ 7 سو روپے ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر 980 روپے ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی تھی۔
اس وقت کراچی میں سی این جی اسٹیشن مالکان صارفین سے ایک سو 4 روپے فی کلو تک جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں ایک سو ایک روپے فی کلو تک قیمت وصول کر رہے ہیں۔ مختلف ایسوسی ایشنز کے عہدیداران نے بتایا کہ انہوں نے دو روز قبل فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے میں عدالت میں جائیں گے یا مظاہرے کریں گے یا پھر سی این جی اسٹیشنز بند کردیں گے، تاہم 6 اکتوبر کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ صارف کے لیے قیمت میں اضافہ کردیا جائے گا۔ حکومت کا گیس کے نرخ 46 فیصد بڑھانے کا فیصلہ ان افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت سے گیس کے نرخ میں اضافہ نہ کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن اس پر ردِ عمل نہیں دیا گیا۔ سی این جی ڈیلرز ایسوسی ایشنز کے چیئرمین عبدالسمیع خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ثابت ہوجائے گا کہ یہ صارفین اور اس صنعت کے لیے تباہ کن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب سی این جی کی ایک کلو قیمت 81.70 روپے تھی اس وقت پیٹرول کی قیمت 93.30 روپے تھی، جس کی وجہ سے گاڑی چلانے والوں کو 40 فیصد بچت ہوتی تھی، تاہم اب یہ فرق صرف 20 سے 25 فیصد تک رہ گیا ہے۔ آل پاکستان سی این جی فورم کے چیئرمین شبیر سلیمان جی کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سی این جی کی قیمت ایک سو 8 روپے فی کلو سے ایک سو 115 روپے فی کلو ہے جبکہ قیمتوں کے بڑھنے سے قبل یہ قیمت 87 روپے فی کلو سے 96 روپے فی کلو تھی، کیونکہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں
کے پی میں گیس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گاڑیوں کے مالکان سی این جی اسٹیشن پر موجود عملے سے اس اضافے پر لڑ رہے ہیں۔ شبیر سلیمان جی نے دعویٰ کیا کہ اب بھی سی این جی کے استعمال سے پیٹرول کے استعمال کے مقابلے میں 20 فیصد تک بچت ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ سی این اسٹیشنز کے مالکان نے قیمتوں کے اضافے کے پیش نظر اپنے اسٹیشن سے ملازمین کو نکالنا شروع کردیا ہے۔
اور اس سلسلے میں ہر 6 میں سے 2 افراد کو ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔ آل پاکستان سی این جی فورم کے چیئرمین نے واضح کیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مسافروں کو کرایے میں اضافے کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ 70 فیصد بسیں سی این جی پر ہی چلتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش، بچوں کے اسکولوں کی ٹرانسپورٹ اور یہاں تک کہ چپاتی، شیرمال، تافتان اور کلچے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔