جمعرات‬‮ ، 30 جنوری‬‮ 2025 

حکومت کو ٹیکس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت ہے

datetime 25  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت کو ملکی ٹیکس آمدن کو بڑھانے اور محصولات کے خلا کو پُر کرنا ہے تو اس کے لیے اسے نئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ٹیکس کی مد میں ہر سال میں 80 کھرب روپے بنانے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ملک کو مزید بیرونی قرضوں سے بچانے کے لیے 80 کھرب روپے تک

ٹیکس آمدن لے جانے کا اعادہ کیا تھا۔ پاکستان کے ٹیکس آمدن کو 30 کھرب 80 ارب روپے سے 80 کھرب روپے تک لے جانے کے امکانات میں ٹیکس فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے 9.8 فیصد ہے۔ ملک کی مجموعی ٹیکس حصول اور ٹیکس کی ادائیگی میں فرق ہی ٹیکس کے مترادف ہے۔ نئی حکومت کا سابقہ حکومت کی ٹیکس استثنیٰ پالیسی واپس لینے پر غور اتنے بڑے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ٹیکس پالیسی، ٹیسک کے حصول میں میکنیزم کی مضبوطی اور ٹیکس نظام میں خامیوں کو ختم کرنے کے لیے ایمانداری کے ساتھ کام کرنا ہے۔ تاہم غیر موزوں ٹیکس پالیسی بڑھتے ہوئے ٹیکس فرق کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مالی سال 18-2017 کے دوران ٹیکس اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تھا، جو تقریباً 5 کھرب 40 ارب روپے تھا۔ ٹیکس اخراجات میں ٹیکس دہندگان کے لیے چھوٹ، استثنیٰ، کٹوتی اور کریڈٹ شامل ہیں جو مخصوص ٹیکس دہندگان کو دیے جاتے ہیں۔ ٹیکس اخراجات کو اس کی اصل حالت میں نافذ کرنے سے منصفانہ ٹیکس کے نظام کے لیے ضروری ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں مدد ملے گی۔ ’ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ نہیں ہوا ‘ ٹیکس پالیسی کے دوسرے عنصر کو بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے جس کا مقصد ٹیکس کی دفعات کو آسان بنانا ہے، کیونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں کچھ معاملات اتنے پیچیدہ ہیں، جنہیں آسانی کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ مزید براں یہ کہ ٹیکس کے نظام کو معاشی ترقی کا مدد گار اور منصفانہ بنانے کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس جائزے میں سب سے زیادہ انحصار براہِ راست ٹیکس کے حصول پر کیا جائے اور اسے آہستہ آہستہ بڑھایا جائے جبکہ ود ہولنگ ٹیکس کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے۔ ٹیکس خلا کو پُر کرنے کے لیے حکام کو پاکستانی معیشت کے اہم حصوں جیسے ریئل اسٹیٹ، سروسز، ہاسپٹالٹی، کھانے، نئے ابھرتے ہوئے کاروبار اور گاڑیوں اور دیگر پُر آسائش اشیا سمیت گھروں کی بروکیج پر اہم توجہ دینی چاہیے۔ ان تمام کاروباری حصوں میں مخصوص ٹیکس کے نظام کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

موضوعات:



کالم



دجال آ چکا ہے


نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…