ٹیکس میں چھوٹ سے خزانےکو پہنچنے والا نقصان

3  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اپنے دیگر ہم عسر ترقی پذیر ممالک کی طرح حکومتِ پاکستان کی مالیات کا ایک بڑا حصہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مشتمل ہےلیکن دیگر معیشتوں کے مقابلے میں ملکی مجموعی پیداواری کے تناسب ٹیکس وصولی خاصی کم ہے۔  مضمون کے مطابق اس کی وجوہات میں ٹیکس اخراجات، جو ٹیکس کوڈ میں اہم خصوصیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ٹیکس چھوٹ

، خصوصی اسکیمیں، کم شرح اورٹیکس قوانین کے بین الاقوامی میعار سے دیگر انحرافات شامل ہیں۔ ان اخراجات کی وجہ سے مالی سال 17-2018 کے دوران ریونیو میں 5 سو41 ارب روپے کا نقصان ہوا جو وفاقی ٹیکس کلیکشن کا 14 فیصد ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں ٹیکس آمدن میں 13.6 فیصد اضافہ اس سے ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ اور معیشیت پر پڑنے والے اسکے اثرات سے اور اسے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں غیر متوقع مجموعی آمدن پر لاگو ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ زائد آمدنی والے افراد پر ٹیکس غیر موثر ہونے کی وجہ سے آمدنی کی تقسیم بھی غیر متوازن ہے۔ آمدنی کے بڑے ذریعے کی حیثیت سے بلاواسطہ ٹیکس پر حد سے زیادہ انحصار، جو مجموعی کلیکشن کا 62 فیصد ہے، کے باعث نظام کو نہ ہی سب کے لیے یکساں اور نہ ہی منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایف بی آر کو کرپٹ ٹیکس افسران کےخلاف انکوائری مکمل کرنے کیلئے 3 ماہ کی مہلت دوسری جانب ٹیکس وصولی میں بہت بڑا خلا اور رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے کی شرح انتہائی کم ہونے کے سبب براہِ راست وصولی کی مد میں ایک بہت بڑا حصہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے اکھٹا کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث متوقع ٹیکس ا ورحاصل ہونے والے ٹیکس میں خاصہ فرق ہوتا ہے، یہ بات بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ حکومتی ٹیکس اصل میں بلاسطہ ٹیکس کی ہی ایک قسم ہے۔

جس کی وجہ سے بلاواسطہ حاصل ہونے والے ٹیکس کی وصولی کا اصل مجموعہ 62 فیصد کی سرکاری شرح کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ادھر اسٹینڈرڈ ٹیکس پالیسی ، جو اچھی طرزِ حکمرانی کی اہم خاصیت سمجھی جاتی ہے، میں ٹیکس کی معافی، رعایت اور دیگر منحرفات سے مالیاتی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس لیے مالی شفافیت قائم کرنے کے لیے حکومتی ڈھانچے اور معاملات ، پالیسی ارادے، پبلک سیکٹر اکاؤنٹس اور تخمینوں تک

عوام کی رسائی ہونی چاہیے۔ اس کےساتھ بجٹ میں ٹیکس اخراجات شامل کرنا بھی شفافیت کی بنیادی ضرورت ہے، جبکہ حکومت سال 07-2006 سے ہر سال پیش کیے جانے والے معاشی سروے میں صرف تخمینہ شائع کرتی ہے۔ خیال رہے کہ ٹیکس اخراجات کے حوالے سے مالیاتی پالیسی آبادی کے مختلف گروہوں کی آمدنی اور بہتر رہن سہن پر اثر انداز ہوتی ہے، جبکہ ٹیکس اخراجات بظاہر ذرائع آمدنی میں غیر یکسانیت کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…