کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 25 بی پی ایس بڑھا کر 6 فیصد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ نے مرکزی بینک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی نمو گذشتہ 11 برسوں کی بلند ترین سطح حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوسط عمومی مہنگائی اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کی حدود کے اندر ہے۔
لیکن قوزی مہنگائی بڑھتی رہی ہے۔ انہوں نے توقع اظہار کیا کہ مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی کا مالیاتی خسارہ پچھلے سال کی شرح 2.5 فیصد کے قریب رہے گا۔ برآمدی نمو میں نمایاں بہتری رہی ہے اور ترسیلات تھوڑی زیادہ ہیں تاہم زیادہ تر درآمدات کی بلند سطح کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ دباؤ میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ توقع ہے کہ دسمبر 2017ء میں شرح مبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ سے بیرونی محاذ پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی شعبے میں پیش رفت سے ظاہر ہے کہ شعبہ زراعت کی کارکردگی مسلسل دوسرے سال بہتر رہے گی۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کے شعبے میں جولائی تا نومبر مالی سال 18 کے دوران 7.2 فیصد کی بھرپور وسیع البنیاد نمو دیکھی گئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں 3.2 فیصد نمو ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انفراسٹرکچر اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری سے تعمیرات اور منسلکہ صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کی بلند نمو کی رفتار قائم رہے گی۔ طارق باجوہ نے کہا کہ مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی میں اوسط عمومی مہنگائی 3.8 فیصد ہے۔ اس کے ہمراہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے موخر اثر اور تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی بنا پر آئندہ مہینوں میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 18ء کے لئے اوسط مہنگائی اب بھی 4.5 سے 5.5 فیصد کی حدود میں رہنے کا تخمینہ ہے ۔
تاہم امکان ہے کہ مالی سال کے آخر میں سال بسال مہنگائی آہستہ آہستہ 6 فیصد کے سالانہ ہدف کی طرف بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی محاذ پر مالی سال 18ء کی پہلی ششماہی کے دوران برآمدی وصولیوں میں 10.8 فیصد نمو ہوئی جو گذشتہ سات برسوں کی بلند ترین سطح ہے جبکہ مالی سال 17ء کی پہلی ششماہی میں 1.4 فیصد کمی ہوئی تھی۔
طارق باجوہ نے کہا کہ آگے چل کر دسمبر 2017ء میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، برآمدی پیکیج، ریگولیٹری ڈیوٹیز میں ردوبدل کے موخر اثرات، سازگار بیرونی ماحول اور کارکنوں کی ترسیلات زرِ میں متوقع اضافے سے ملک کے جاری کھاتے کے خسارے میں بتدریج کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں لگ بھگ 5 فیصد کمی ہوئی ہے، تیل کی قیمتیں تقریبا 70 ڈالر فی بیرل کے آس پاس ہیں ۔
کئی مرکزی بینکوں نے اپنی پالیسی ریٹس میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے جو ان کی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی شرح سود کے تفرق پر منفی اثر ڈال رہا ہے اور کئی اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ پیداواری فرق خاصا کم ہوگیا ہے جس سے طلب کے دباو میں اضافے کا اظہار ہوتا ہے۔ طارق باجوہ نے کہا کہ ان حالات کی بنیاد پر زری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ معیشت کو اوورہیٹنگ سے بچانے اور مہنگائی کو ہدف کی شرح سے متجاوز نہ ہونے دینے کی خاطر یہ ایسا پالیسی فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ وسط تا طویل مدت میں نمو اور استحکام میں توازن قائم ہو جس کے لیے زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 25 بی پی ایس بڑھاکر 6 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔