کراچی(این این آئی)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دوماہ کے کیلئے شرح سود کااعلان کردیاہے، شرح سود میں 25 بیسسز پوائنٹس کمی کی گئی ہے، جس کے بعد شرح سود ملکی تاریخ کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر آگئی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق مالی سال برائے 2015-16 کے اختتام پر ملک میں معاشی حالات بہتری کی جانب گامزن ہے۔ سال بسال بنیادوں پر مسلسل اضافے کے باوجود عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی مالی سال 16 کے لیے مقررہ 6 فیصد کے سالانہ اوسط ہدف سے کم رہے گی۔ حقیقی جی ڈی پی کی نمو مالی سال 15 کی 4.2 فیصد سے زیادہ لیکن اپنے 5.5 فیصد کے ہدف سے کم رہے گی۔ امکان ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر گذشتہ برس کی سطح تقریبا ایک فیصد پر رہے گا جبکہ ادائیگیوں کے توازن میں متوقع فاضل مالی سال 15 کی سطح سے کچھ کم ہو گا۔ تاہم زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافے کا رجحان جاری رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔توقع کے مطابق عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی میں مسلسل ساتویں مہینے اضافے کا رجحان برقرار رہااور سال بسال بنیاد پر یہ ستمبر 2015 میں 1.3 فیصد کی پست سطح سے بڑھ کر اپریل 2016 میں 4.2 فیصد تک پہنچ گئی۔ تلف پذیرغذائی اشیا اور خدمات کے موسمی اثرات کے علاوہ اس اضافے کا اہم سبب اساسی اثر کی مزید کمزوری اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے دورِ ثانی کے اثرات ہیں۔ اسی طرح قوزی گرانی کے پیمانے بھی بڑی حد تک اس مالی سال میں اضافے کے رجحان پر عمل پیرا رہے جس سے اس میں پنہاں مہنگائی کے رجحانات کی مضبوطی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان رجحانات اورپیش رفت کے باوجود مالی سال 16 میں مہنگائی کم رہنے کا امکان ہے۔ تاہم امکان ہے کہ مالی سال 17 میں مہنگائی بلند سطح پر چلی جائے گی۔مہنگائی کی راہ کا تعین کرنے والے اہم عوامل یہ ہیں: اول، بتدریج بہتر ہوتی ہوئی رسدی حرکیات کے مقابلے میں طلب میں قدرے تیزی سے اضافے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ دوم، تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کے ساتھ ساتھ غیر توانائی اجناس کی قیمتوں میں معتدل بحالی ملکی صارفی قیمتوں کو منتقل ہو جائے گی۔ سوم، اگر نئے ٹیکس اقدامات کے نفاذاور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے جیسے بعض خطرات نے حقیقت کا روپ دھار لیا تو اس سے صارف اشاریہ قیمت مہنگائی پر اضافے کا دباؤ بڑھ جائے گا۔صنعتی سرگرمیوں اور خدمات کے شعبے میں توسیع سے جی ڈی پی کی نمو میں کپاس اور چاول کی فصلوں کے نقصانات کے باعث ہونیو الی کمی کا ازالہ کرنے میں مدد ملے گی۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM)میں بحالی ،جس میں جولائی تا مارچ مالی سال 15 کے 2.8 فیصد کے مقابلے میں جولائی تا مارچ مالی سال 16 کے دوران 4.7 فیصد نمو ہوئی ، کا سلسلہ متوقع طور پر توانائی اور امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورت حال کے باعث جاری رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیرات میں عمدہ نمو اور صارفی اشیا کی پہلے سے بہتر طلب نے متواتر یہ باور کرایا ہے کہ رواں مالی سال میں ملکی طلب میں بحالی ہوئی ہے۔ اس کی عکاسی نجی شعبے کی جانب سے لیے گئے قرضوں سے بھی ہوتی ہے جن میں جولائی تا مارچ مالی سال 16 میں 314.7 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 15 کی اسی مدت کے دوران یہ 206.0 ارب روپے بڑھے تھے۔ چنانچہ توقع ہے کہ مالی سال 16 میں جی ڈی پی نمو سے مطلوبہ استحکام حاصل ہو جائے گا اور وہ مالی سال 17 میں مزید بہتری کی بنیاد فراہم کرے گی۔جہاں تک بیرونی شعبے کا تعلق ہے، توازنِ ادائیگی میں استحکام اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بنیادی طور پر جاری اور مالی دونوں کھاتوں میں سازگار پیش رفت کی بنا پر ہوا۔ کارکنوں کی مستحکم ترسیلات زر اور تیل کی کم قیمتوں نے جاری حسابات کے خسارے کو قابلِ بندوبست سطح پر رکھنے میں مدد دی ہے، جبکہ مالی کھاتے کی فاضل رقوم میں کثیر طرفہ اور دو طرفہ رقوم کی آمد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران بھی ان عوامل میں سازگار رجحانات کے نتیجے میں توازنِ ادائیگی میں بحیثیت مجموعی فاضل رقم کا امکان ہے، جبکہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر بڑھ کر تخمینے کے مطابق چار ماہ سے زائد مدت کی درآمدات کیلیے کافی ہوں گے جو مالی سال 15 کے اختتام پر تقریبا تین ماہ کی مدت سے زیادہ ہیں۔ آگے چل کر بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں پر کام تیز ہو رہا ہے۔ دوسری طرف، اجناس کے نرخوں میں متوقع معمولی اضافے اور توانائی کی ملکی رسد بہتر ہونے کے سبب توقع ہے کہ برآمدی وصولیوں میں معمولی بحالی آئے گی۔ تاہم نجی سرمائے کی آمد میں کچھ عرصہ سے جاری کمزوریاں برقرار ہیں اس لیے تیل کی قیمتوں یا کارکنوں کی ترسیلات زر میں کوئی منفی تبدیلی واقع ہوئی تو غیر یقینی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔مذکورہ صورتِ حال کے پیش نظر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی نے تفصیلی غور و خوض کے بعد پالیسی ریٹ کو 25 بیسس پوائنٹس کم کر کے 6.0 فیصد سے 5.75 فیصد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔