کراچی(نیوز ڈیسک )پاکستان میں گزشتہ 5 برس سے ٹریکٹرز کی فروخت میں منفی نمو کا سامنا ہے جو نہایت پریشان کن اور متعلقہ حکام کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ 5 سال میں ٹریکٹرز کی فروخت میں 51 فیصد منفی نمو رجسٹر کی گئی۔ 2010 میں ملک میں ٹریکٹرز کی فروخت 70ہزار 646 یونٹس تھی جو 2011 میں گر کر 49ہزار 125یونٹس، 2012 میں نسبتاً بڑھ کر64ہزار 502، 2013 میں کم ہو کر 41ہزار 547 اور پھر 2014 میں فروخت مزید نیچے آ کر صرف 34 ہزار796 رہ گئی۔ کسان اتحاد کے خالد کھوکر کے مطابق یہ صورتحال بہت سنگین ہے، ایک کے بعد دوسری حکومت کی فارم مشینری کی جانب غفلت کی وجہ سے ملک اور زرعی شعبہ تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ صنعت کو حکومت کی جانب سے تعاون کی شدید ضرورت ہے، موجودہ حکومت نے کسان پیکیج کے نام سے بہت بڑے پیکیج کا اعلان کیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں فارم مشینری کے سلسلے میں کچھ شامل نہیں کیا گیا، یہ بات حیران کن ہے کہ حکومت نے کسانوں کیلیے بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کیا لیکن یہ خود انحصاری پر گامزن نہیں کریگا، پاکستان میں فارم مشینری کی شدید قلت ہے، کم زرعی پیداوار کے عوامل میں سے ایک مشینری کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران صرف 7 ہزار 316 ٹریکٹرز تیار کیے گئے جبکہ جولائی تا ستمبر 2014کے دوران 11 ہزار 896 ٹریکٹر تیار ہوئے تھے جو منفی نمو کی نشاندہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ٹریکٹر صنعت کی پیداواری صلاحیت 60 ہزار یونٹس ہے اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل 2 سال کیلیے شفٹوں کو وسعت دیتے ہوئے اسے 70ہزار یونٹس تک بڑھا دیا گیا تھا، اس وقت فروخت 40 ہزار یونٹس کے قریب ہے جس کی وجہ سے صنعت ترقی کیلیے اپنے پیداواری اہداف کو حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کرنے پر مجبور ہے۔