کراچی(نیوز ڈیسک) پاکستانی گندم بین الاقوامی مارکیٹ سے 40 فیصد یا 550 روپے من تک مہنگی ہونے کی وجہ سے 9500 روپے فی ٹن ری بیٹ کے باوجود برآمد نہیں کی جاسکی کیونکہ افغانستان اور متحدہ عرب امارات جیسی منڈیاں بھی اب پاکستانی گندم خریدنے سے گریز کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں گندم کے ڈھیر لگ گئے ہیں، اس وقت ملک میں 30 لاکھ ٹن گندم مقامی طلب سے زیادہ ہے، اپریل سے گندم کی نئی فصل ملک میں آئے جائے گی اس لیے فاضل گندم کی نکاسی نہ ہوئی تو بھاری ذخائر کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔فلورملز ایسوسی ایشن کے باخبرذرائع نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ عالمی مارکیٹ میں فی من گندم کی قیمت750 تا800 روپے ہے جبکہ پاکستان میں گندم کی قیمت گزشتہ 5سال سے 1300روپے من ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف مخصوص شعبے کے مفادات کا تحفظ کرنے میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ فلورملزایسوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت کا کام تجارت کرنا نہیں بلکہ عوامی مفادکے لیے اوپن مارکیٹ میکنزم اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اگر پاکستان میں گندم کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ کے تناسب سے مقرر کی جائیں تو عوام کو فی کلوگرام ا?ٹا 10 روپے سستا مل سکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں گندم کی قیمت زیادہ رکھ کر صرف بڑے زمینداروں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے جنہیں حکومت کسی اور میکنزم کے تحت بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے مگر مہنگی گندم سے جہاں عام آدمی ریلیف سے محروم ہے تو وہاں پاکستانی آٹے کی سب سے بڑی منڈی افغانستان اور متحدہ عرب امارات بھی ہاتھ سے نکلتی جارہی ہیں کیونکہ اب افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں، ایران اور بھارت سے آٹا خریدنے کو ترجیح دے رہا ہے، اسی طرح متحدہ عرب امارات اورافریقہ نے بھی اب پاکستان کے حریف ممالک کا رخ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں فاضل گندم کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کا بھی فقدان ہے۔صورتحال برقرار رہی تو نئی فصل آنے پر پاکستان میں 30 لاکھ ٹن فاضل گندم کے ذخائر ضائع ہونے کا خدشہ ہے جسے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور گندم کی قیمت کو عالمی مارکیٹ کے برابر لائے تاکہ عوام کو آٹا10 روپے فی کلو سستا ملے اور ملک سے گندم اور اس سے تیار مصنوعات کی برآمدی سرگرمیاں جاری رہ سکیں ورنہ گندم وآٹے کی دیرینہ مارکیٹس ہاتھ سے نکل جائیں گی