کراچی(نیوز ڈیسک)سال 2015 کے دوران پاکستان میں ٹیلی کام انڈسٹری کے لیے چیلنجز سے بھرپور سال رہا۔ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکسوں کی بھرمار، انٹرنیٹ پر دہرے ٹیکسوں کا نفاذکی وجہ سے 2015کے دوران ٹیلی کام سروس اور ایکوئپمنٹس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ سال کے آغاز پر موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق کیلیے مہم کے دوران نئے کنکشنز کی فروخت نہ ہونے اور بائیومیٹرک ڈیوائسز سمیت اس مہم پر اخراجات کی وجہ سے ریونیو میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیلی کام سیکٹر میں غیرملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر آگئی۔ چیلنجز کے باوجود ٹیلی کام کمپنیوں کی توجہ تھری جی اور فورجی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے پر مرکوز رہی جس سے نومبر تک تھری جی /فورجی صارفین کی مجموعی تعداد 2کروڑ 16لاکھ 58ہزار تک پہنچ گئی۔سال کے دوران موبی لنک اور وارد میں انضمام کا اعلان انڈسٹری کے منظر نامے کی سب سے بڑی پیش رفت رہی۔ موبائل انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ برانچ لیس بینکاری اور موبائل اکاو¿نٹ کے شعبے میں بھی نمایاں سرگرمی دیکھنے میں آئی۔ٹیلی کام سیکٹر میں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے انسٹافون کا 850میگا ہرٹز اسپیکٹرم اور سال 2014میں نہ فروخت ہونے والا فورجی کا 10میگا ہرٹز اسپیکٹرم بھی نیلام نہ ہوسکا۔موبائل فون کمپنیوں نے رواں سال کے ا?غاز پر تین ماہ کی مہم کے دوران 10کروڑ 30لاکھ سموں کی ازسرنو بائیومیٹرک تصدیق کی مہم کامیابی سے مکمل کی جس کے اختتام پر غیرتصدیق شدہ چار کروڑ سمیں بند کردی گئیں۔اس مہم کے لیے موبائل کمپنیوں نے 80ہزار سے زائد بائیومیٹرک ڈیوائسز نصب کیں جس پر 3کروڑ ڈالر تک کی رقم خرچ کی گئی۔اس کے علاوہ اضافی عملے کی تعیناتی، تربیت اور متحرک ٹیموں پر بھاری اخراجات کیے گئے اس مہم کے دوران نئی سموں کی فروخت بند رہنے سے ٹیلی کام کمپنیوں کو ریونیو کی مد میں مجموعی طور پر 80کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیلی کام خدمات پر ٹیکسوں کی بھرمار نے صارفین اور کمپنیوں کو متاثر کیا۔ موڈیزانویسٹر سروس نے بھی ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بھرمار کو پاکستان میں کام کرنے والی موبائل کمپنیوں کے ریونیو میں کمی اور کم آمدن طبقے کیلئے مشکلات کا سبب قرار دیدیا۔موڈیزکی جانب سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کے اثرات سے متعلق ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر عائد کردہ 19.5فیصد سیلزٹیکس اس شعبے کے ریونیو کی افزائش پر اثر انداز ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جون 2015 میں موبائل ہینڈ سیٹس پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح میں 100فیصد اضافہ کیا تھا، اگرچہ یہ ٹیکس مالیت کے لحاظ سے کم نظر آتا ہے لیکن اس کا بوجھ کم آمدن والے طبقے پر مرتب ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی پہلی ششماہی جائزہ رپورٹ میں بائیومیٹرک بائیومیٹرک ری ویریفکیشن مہم کو ٹیلی کام سیکٹر پر مالی بوجھ میں اضافے کا سبب قرار دے دیا ہے۔ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے پاکستان دنیا میں ٹیلی کام سروسز پر سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا۔ ٹیلی کام کمپنیوں کے مطالبے کے باوجود کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے اور حکومت کو سالانہ اربوں روپے مالیت کے ٹیکس ادا کرنیوالے اس شعبے کو صنعت کا درجہ نہ مل سکا اور اس شعبے کیلئے درآمد کیے جانے والے آلات اور ایکوئپمنٹ پر بدستور کمرشل ٹیکس وصول کیے گئے۔کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ٹیلی کام کسٹمرز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح دیگر شعبوں کے مساوی 16فیصد کی سطح پر لائی جائے اسی طرح ایڈوانس ٹیکس کی شرح کم کرکے 5فیصد کی جائے۔ سیلولر کمپنیوں کے مطابق ان اقدامات سے 2020 تک 2کروڑ نئے صارفین کا اضافہ ہوگا جس سے ملک میں مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کو 1.1 ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا۔سال کے دوران بینک کھاتوں اور لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ نے برانچ لیس بینکاری کو بھی مشکلات سے دوچار کیا۔ ٹیلی کام کمپنیوں کی درخواست کے باوجود برانچ لیس یا موبائل اکاو¿نٹ سے رقوم کی منتقلی پر ودہولڈنگ ٹیکس کا استثنیٰ نہ مل سکا۔سال کے د وران برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس اینڈ بزنس، بائٹس فار ا?ل(بی فور اے) پاکستان، جرمنی کے سینٹر فار انٹرنیٹ اینڈ ہیومن رائٹس، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے اینن برگ اسکول برائے کمیونی کیشن کے سینٹر فار گلوبل کمیونی کیشن اسٹڈیز کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستان میں موبائل فون بندش سے سماجی، معاشی اور انسانی حقوق پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ریسرچ رپورٹ ’سیکیورٹی بمقابلہ ایکسس، دی امپیکٹ آف موبائل نیٹ ورک شٹ ڈاو?ن‘ بھی منظر عام پر آئی جس میں سیکیورٹی خدشات کی بنا پر موبائل فون اور انٹرنیٹ کی بندش کو معیشت کیلئے نقصان دہ ہونے کے ساتھ سماجی شعبے بالخصوص انسانی حقوق کیلئے مسئلہ قرار دیا گیا۔رپورٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشنز ایکٹ 1996کے سیکشن 54کے تحت موبائل فون کی بندش سے موبائل فون آپریٹرز کو ہونے والے نقصان کی تلافی کو بھی حکومت کی ذمے داری قرار دیا گیا