صوابی،ساہیوال(نیوزڈیسک)کون سی گاڑی چاہیئے؟ایک لٹر میں ستر کلو میٹر طے کرنیوالی یاایک لٹر میں ساٹھ کلو میٹر طے کرنے کار؟ صوابی اور ساہیوال کے طلبہ نے تہلکہ مچادیا،ایک نے بنائی ایک لٹر میں ستر کلو میٹر طے کرنیوالی کار اوردوسروں نے بنائی ایک لٹر میں ساٹھ کلو میٹر طے کرنے والی کار،تفصیلات کے مطابق غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی صوابی کے طلباء نے ایک لٹر پٹرول میں ستر کلو میٹر تک فاصلہ طے کرنے والی منفرد گاڑی تیار کر لی۔ گاڑی مارچ میں منیلا میں ہونے والی شیل ایکو میراتھن 2016 میں پیش کی جائے گی۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی صوابی ٹوچی کے طلباء نے کم ایندھن خرچ کرنے والی گاڑی بنا کر انوکھا کارنامہ سرانجام دے دیا۔ ڈولفن طرز پر بنائی گاڑی میں بیٹری اور پٹرول دونوں پر چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔گاڑی ایک لیٹر پٹرول میں ستر کلو میٹر تک فاصلہ طے کر سکے گی۔ ون سیٹر گاڑی غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبا نے اپنے اساتذہ اور سینئر کی رہنمائی میں تیار کی ہے جو مارچ میں منیلا میں ہونے والی نمائش میں پیش کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ گاڑی کے تمام پرزے ملک میں دستیاب ہیں یہ ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہے۔ اس پر تین لاکھ روپے تک خرچ ہوئے ہیں۔شیل ایکو میراتھن مارچ 2016 کو فلپائن کے شہر منیلا میں منعقد ہو گی۔ ایونٹ میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبا کے علاوہ پاکستان کی کل نو ٹیمیں شرکت کریں گی۔ علاوہ ازیں ساہیوال میں بھی یونیورسٹی طلبا نے تین افراد کی گنجائش والی باکفایت کار تیار کر لی۔ کار ایک لٹر میں ساٹھ کلو میٹر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،ساہیوال کے طلبہ نے سستی اور باکفایت کار بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔۔کار بنانے کا کامیاب تجربہ نجی یونی ورسٹی کے آٹھ طلبا پر مشتمل گروپ نے کیا۔فائبر باڈی والی گاڑی کی تیاری میں چار ماہ لگے اور اس پر چار لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔گاڑی میں ستر سی سی انجن استعمال کیا گیا ہے۔جو ایک لٹر میں ساٹھ کلو میٹر طے کر سکتی ہے اور اس میں تین افراد کی گنجائش ہے۔گاڑی بنانے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس سے پٹرول کی بچت ہو گی۔ جبکہ موٹر سائیکل پر سفر کے برعکس باکفایت گاڑی کے ذریعے موسمی اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس کار کو کمرشل طور پر بنایا جائے تو اسکی لاگت میں کمی آئے گی۔ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس گاڑی کو فلپائن میں نمائش میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہے