اسلام آباد (نیوزڈیسک) کسی کو شاید یقینی نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو گزشتہ 15 سال کے دوران غیرملکی قرضوں اور گرانٹس کی مد میں سالانہ محض 70 کروڑ 8لاکھ ڈالرز ہی ملے۔ ایسے وقت جب اسلام آباد کو جوہری پروگرام اور دیگر معاملات میں دباؤ کا سامنا ہے، پالیسی سازامریکا اور اسکے امریکی اتحادیوں کو آئینہ دکھاسکتے ہیںکہ امریکا کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان کے 107 ارب ڈالرز کے حقیقی نقصانات کے مقابلے میں مذکورہ قرضوں اور گرانٹس کا محض کوڑیوں کے برابرہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2000ء تا 2001ء سے 2014ء تا 2015ء پاکستان کو غیرملکی اقتصادی امداد کی مد میں قرضوں اور گرانٹس کی شکل میں 49 ارب 95 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز ملے۔ گزشتہ 15 سال کے دوران یہ سالانہ اوسط 3 ارب 33 کروڑ ڈالرز اور ان کی ادائیگی کی اوسط 2 ارب 62 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز بنتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی بینک، اے ڈی بی، آئی ڈی بی اور امریکا، برطانیہ، جاپان، سعودی عرب اور تمام ڈونر ممالک کی جانب سے سالانہ مجموعی منتقلی 70 کروڑ 8 لاکھ ڈالرز رہی۔روزنامہ جنگ کے صحافی مہتاب حیدرکی رپورٹ کے مطابق جبکہ سابق خصوصی سیکریٹری خزانہ اور معروف معاشی ماہر ڈاکٹر اشفاق خان کاکہنا ہےکہ ملک وہاں قرضے کے جال میں پھنسا جب کہ سابقہ حکومت کے لیے ہوئے قرض کی ادائیگی کیلئے آج دوبارہ قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے پر دستخط کے بعدباہمی امداد کے سلسلے میں کمی کثیرالفریقی قرضوں میں اضافہ بھی ہوا۔ انہوںنےکہاکہ آج ہم بہت زیادہ قرضے ماضی کی حکومتوں کے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لے رہے ہیں ، اور جو قرضےموجودہ حکومت نے لیے اس کی ادائیگی مستقبل کی حکومت مزید قرضے لے گی ، یہی قرضوں کا جال ہے۔ گزشتہ 15برسوں میںقرضوں پر سود کی اوسطاً شرح 1.6فیصد رہی۔پرویز مشرف کے دور میں 2000ء اور 2001ء کے دوران پاکستان کو قرضوں اور گرانٹس کی شکل میں دو ارب 47 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز ملے جبکہ دو ارب 9 کروڑ 90 لاکھ روپے واپس کئے گئے۔ 2001ء تا 2002ء حاصل تین ارب 23 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز میں سے ایک ارب 78 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز واپس کئے گئے۔ اسی طرح سنہ 2002-2003میں ترتیب وار اقتصادی معاونت کی مد میں ایک ارب 92 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز ملے، ایک ارب 82 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز واپس کئے گئے۔2003ء اور 2004ء میں پرویز مشرف حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد حاصل کی اور اس سے کہیں زیادہ ادائیگی 3 ارب 46 کروڑ ڈالرز کی۔ 2004ء اور2005ء میں دو ارب 73 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے۔ ادائیگیاں ایک ارب 74 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی کیں۔ 2005ء اور 2006ء میں 3 ارب 39 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے۔ ادائیگیاں دو ارب 16 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کی گئیں۔ 2006ء اور 2007ء میں ڈونرز سے 3 ارب 41 کروڑ ڈالرز حاصل ہوئے۔ ادائیگیاں دو ارب دو کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی ہوئیں۔ 2007ء اور 2008ء میں قرضوں اور گرانٹس کی مد میں 3 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے، لیکن قرضوں کی بمع سود ادائیگی کی مد میں دو ارب 11 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز واپس ملے۔ پرویز مشرف دور حکومت میں 2001ء تا 2008ء پاکستان کو 22 ارب 46 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز ملے اور 17 ارب 22 کروڑ ڈالرز کی ادائیگیاں کی گئیں۔ جمہوری حکومتوں کے اَدوار میں 2008ء اور 2009ء کے دوران 4 ارب 88 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز ملے اور ادائیگیاں 3 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کی گئیں۔ 2009ء اور 2010ء میں غیرملکی امداد کا حجم 4 ارب 50 لاکھ ڈالرز رہا۔ ادائیگیاں 3 ارب 12 کروڑ ڈالرز کی ہوئیں۔ 2010ء اور 2011ء میں دو ارب 62 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز ملے اور واپس ادائیگی اس سے بڑھ کر دو ارب 73 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی گئی۔ 2011ء اور 2012ء میں 3 ارب 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے۔ ادائیگی دو ارب 29 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کی گئی۔ 2012ء اور 2013ء میں پاکستان نے ان 15 برسوں میں حاصل رقوم کے مقابلے میں سب سے زیادہ ادائیگی کی۔ دو ارب 89 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے۔ 3 ارب 60 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی گئی۔ 2013ء اور 2014ء میں 4 ارب 92 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز ملے۔ 3 ارب 72 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز واپس ادا کئے گئے۔ 2014ء اور 2015ء میں 4 ارب 81 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز ملے۔ 3 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز واپس کئے گئے۔ 2009ء سے 2015ء کے دوران جمہوری حکومتوں کے ادوار میں 27 ارب 48 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے قرضوں کی بمع سود ادائیگی کی مد میں 22 ارب 11 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز واپس کئے گئے۔جب ہفتے کو معروف معاشی ماہر ڈاکٹر فیصل باری سے رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھاکہ برآمدات میں اضافے اور قرضے کے بوجھ کو موثر طور پر سنبھالنے کیلئے پاکستان کو اپنے مقامی ذرائع کو بروئے کار لانا ہونگ