کراچی (نیوزڈیسک)محکمہ تحفظ نباتات،ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پراٹیکشن، منسٹری آف فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی نااہلی کے باعث خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستانی آموں کی برآمدات پر یورپی مارکیٹوں میں پانچ سال تک کی پابندی لگ سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں سال 2015ء میں اب تک تین بار برآمدات روکی گئی ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ پانچ کی اجازت ہے لہذا پانچ بار سے زیادہ آم کی برآمدات روکے جانے کی صورت میں پاکستان سے برآمد ہونے والے آموں پر پانچ سال کی بندش ہوجائے گی۔تفصیلات کے مطابق ای یو ریپڈ الرٹ سسٹم(SANCO) نے اپنے نوٹس نمبر 94760 کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ 14 جون کو 5135 کلوگرام آم کی شپمنٹ جو دھرما ٹریڈنگ ہولنڈا، نیدرلینڈ کو کی گئی تھی ، آموں کے سڑنے کی وجہ سے اس پر نیدرلینڈ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اسی طرح سسٹم کے نوٹس 95380 کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ 3050 کلوگرام کی شپمنٹ جویوکے روانہ کی گئی تھی آموں کے گلنے سڑنے اور سڑنے والے پھلوں پر لگنے والی مکھی کے زندہ لاروے کی وجہ سے روک لیا گیا اور یوکے کی اتھارٹی (ڈی ای ایف آر اے( کے حکام نے اسے ضائع کیا۔ اسی طرح سسٹم کے نوٹس 95393 کے مطابق 15 جولائی کو 1140 کلو گرام کی آموں کی برآمدات جویو کے روانہ کی تھی بھی اسی بنیاد پر روک لی گئی اور اسے بھی یوکے کی اتھارٹی (ڈی ای ایف آر اے) کے حکام نے ضائع کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ صرف ایسی برآمدات کی اجازت دی جائے جس کا مکمل معائنہ کیا گیا ہو اور جو برآمدات کی شرائط پوری کرتی ہوں۔ تاہم محکمہ کے چند عناصر ان طریقہ کار کو اہمیت نہیں دیتے اور صرف چند کمپنیوں کو یورپی ملکوں میں برآمدات کی اجازت دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق طریقہ کار پاکستان پلانٹ کوارنٹائن ایکٹ 1976ء اور پلانٹ کوارنٹائن رولز 1976ء میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے (اور جو پی کیو ایکٹ 1976 ء کے تحت نافذ ہے)۔ محکمے کے چند اعلیٰ افسران کی اس مجرمانہ غفلت کے باعث اب تک تین بار پاکستان کی برآمدات روک لی گئی ہیں اب اگر مزید دو برآمدات بھی اس طرح روک لی جاتی ہیں تو پھر پاکستانی آموں کی برآمدات پر پانچ سال تک کیلئے یورپی مارکیٹوں میں پابندی عائد کردی جائے گی۔ روکے جانے والی برآمدات میں سے دو کی اجازت محکمے کے افسران نے ضوابط کے خلاف ورزی کرتے ہوئے دی تھیں۔ افسران نے ان کمپنیوں کو مزید رعایت دیتے ہوئے صرف یوکے تک پابندی عائد کی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں اب بھی دیگر یورپی ممالک کو برآمدات بھیج سکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی متوقع ہے کہ یوکے میں پابندی کی حامل ان کمپنیوں کی دیگر یورپی ملکوں کو روانہ کی جانے والی برآمدات کو بھی اسی طرح روک لیا جائے اور پاکستان کو ان کمپنیوں کی وجہ سے خمیازہ بھگتنا پڑے۔ یہ صورت حال محکمہ کے چند افسران کی مجرمانہ کوتاہی کی وجہ سے پیدا ہوگی۔ ذرائع نے کہا کہ یہ اہم وقت ہے کہ حکومت کو فوری مداخلت کرنی چاہیے اور فوری طور پر معاملے کی تحقیقات شروع کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی برآمدات پانچ سال کی پابندی سے بچ سکے۔ افسران کی جانب سے چند کمپنیوں کی پسندیدگی دیگر حقیقی برآمدی کمپنیوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی۔ پاکستان نے آم کے سیزن 2014ء شروع ہونے کے بعد 91,700 میٹرک ٹن آم برآمد کیا جبکہ گزشتہ برس 102,000 میٹرک ٹن آم برآمد کیا گیا تھا۔ پاکستان نے آم کے بہتر عالمی معیار کی وجہ سے مینگو ایکسپورٹ میں اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا۔ تاہم 236 ایسے کنسائنمنٹ جو یورپی مارکیٹ روانہ کئے جارہے تھے وہ گزشتہ سال روک لیے گئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں برآمدات روکے جانے کی وجہ سے متعلقہ حکام نے معاملے پر توجہ دی۔ بہتر اقدامات کی وجہ سے سال 2014ء میں دو برآمدات کو روکا گیا جبکہ ذرائع کے مطابق اب محکمہ کے حکام ایک بار پھر چند کمپنیوں کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور معیارات پر توجہ نہیں دی جارہی ہے جس سے پاکستان کا نام خراب ہورہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس یورپی کمیشن نے اپنے ایک نوٹس کے ذریعے 27 مارچ کوبھارت کی امپورٹ پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ پاکستان کو اس ضمن میں تنبیہ جاری کردی گئی تھی کہ اگر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے