لاہور ( این این آئی)بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر/چارج ڈی افیئرزڈاکٹر ایم سریش کمار نے کہا ہے کہ ہندوستان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو کبھی نہیں روکابلکہ یہ پاکستان کی جانب سے بند کی جاتی ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت اب بھی ہے لیکن صلاحیت سے بہت کم ہے۔وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کر رہے تھے۔
لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور اور سینئر نائب صدر ظفر محمود چوہدری نے بھی اس موقع پر خطاب کیا جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی ممبران بھی موجود تھے۔ڈاکٹر ایم سریش کمار نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ انتہائی اہم ہے۔ وسطی ایشیا ایک بڑی منڈی ہے جس تک بھارت کو رسائی کی ضرورت ہے اور بھارت کو بھی وسطی ایشیا تک رسائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان دنیا کا سب سے اہم اور سب سے بڑا ملک ہے اور بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سروس سیکٹر نے بہت ترقی کی ہے۔ اب ہم آٹوموبائل اور الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے کیونکہ ہم جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ دونوں ممالک ہمیشہ سے پڑوسی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنے مسائل اور حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں۔ ہم معمول کے تعلقات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں کورونا کی وجہ سے ویزوں کی تعداد کم ہوئی لیکن اب ہر سال تیس ہزار ویزے جاری کیے جا رہے ہیں جو کہ بہت بڑی تعداد ہے۔ میڈیکل ویزے بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کھیلوں کی بہت سی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ ہم نے ابھی تک کھیلوں کے لیے کسی ویزا سے انکار نہیں کیا ہے۔ وہ دن گئے جب سفارت خانے سیاسی رپورٹیں مرتب کرتے تھے۔ اب سفارت کاری سیاحت، تجارت اور ٹیکنالوجی کے لیے کی جاتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری چین کے ساتھ 120 ارب ڈالر کی تجارت ہے جس میں تجارت کا توازن چین کی طرف ہے۔ درآمدات ہمیشہ غلط نہیں ہوتیں، لیکن ان کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی بہت اہم ہے۔ دور دراز ممالک میں بیٹھ کر اور دوسرے ممالک میں مینوفیکچرنگ کر کے یورپ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی وجہ سے پیسہ کما رہا ہے۔
یورپ کی یونیورسٹیاں ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ہم نے اپنی یونیورسٹیوں کو انڈسٹری سے جوڑنا بھی شروع کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندوستان میں اسٹارٹ اپ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ فی الحال، ہندوستان ایکو اسٹارٹ اپ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ روایتی طور پر ہم خدمت کے شعبے میں تھے۔ اگر ہم یہ سب کر سکتے ہیں تو پاکستان بھی کر سکتا ہے۔
جیو اکنامکس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جی ٹی روڈ بھارت سے کابل تک جاتی ہے۔ کنیکٹیویٹی بہت اہم ہے۔ ہمیں اس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آٹو سیکٹر کی بات کریں تو دنیا کی بڑی آٹو کمپنیاں ہندوستان میں کام کر رہی ہیں۔ ہم نے مقامی صنعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے امپورٹڈ گاڑیوں پر بھاری ٹیکس لگا دیا ہے۔ مزید کاروباری ویزے جاری کیے جائیں۔
جب تک لوگ ایک دوسرے کے ملکوں میں نہیں جائیں گے، کاروبار میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، پیٹرو کیمیکل اور کئی دیگر اہم شعبوں میں ہندوستان کی کامیابیاں واقعی قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اب نقل و حمل، تجارت اور سیاحت کے لیے ایک علاقائی مرکز کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے سنگم پر واقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم قدم تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کو یکساں طور پر خاطر خواہ اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیائی خطے میں دو سب سے زیادہ آبادی والی اور سب سے بڑی معیشتیں ہیں۔
سارک کے اہم اراکین ہونے کے ناطے، دونوں کے درمیان علاقائی تجارت کی بڑی صلاحیت ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تجارت غیر رسمی طور پر بھی ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت پھل و سبزیاں وافر مقدار میں پیدا کرتے ہیں جبکہ لائیوسٹاک سیکٹر میں بھی وسیع پوٹینشل کے حامل ہیں۔ کاشف انور نے کہا کہ پاکستان بھارت سے کپاس درآمد کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے باقاعدگی سے کپاس کی ضرورت ہوتی ہے، ہندوستان سے زمینی راستے سے درآمد سے پاکستانی کمپنیوں کو لاگت کی مد میں بچت ہوگی۔ مزید برآں، پاکستان بھارت سے دیگر اشیا بھی خرید سکتا ہے جس میں مخصوص قسم کی مشینری، انجینئرنگ کا سامان، اسپیئر پارٹس، ادویات، صنعتی خام مال اور کچھ کیمیکلز/رنگ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے نتیجے میں وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی، حالیہ برسوں میں ہندوستان کو بعض اوقات سیمنٹ کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو وہ پاکستان سے درآمد کرسکتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے بعض مخصوص شعبوں میں مہارت حاصل کی ہے جیسے کہ کھیلوں اور چمڑے کے سامان، آلات جراحی اور ٹیکسٹائل کی مخصوص اقسام جو ہندوستانی صارفین کے لیے سامان کی موجودہ دستیابی کو پورا کر سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ واہگہ بارڈر کھولنے سے بہت فائدہ ہوگا کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی طرح ٹرانزٹ ٹریڈ کے امکانات پر بھی غور کرنا چاہیے جس کے ذریعے بھارت اپنی مصنوعات زمینی راستے سے وسطی ایشیا اور دیگر منڈیوں میں برآمد کرسکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دیکر خطے میں امن اور خوشحالی لائی جائے۔