لندن (نیوز ڈیسک)لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق لندن میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں گذشتہ ایک سال میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔لندن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے گذشتہ 12 مہینوں میں ’اسلامو فوبیا‘ کی 816 وارداتیں ہوئی ہیں جبکہ اس سے قبل اسی مدت میں 478 وارداتیں ہوئی تھیں۔مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’ٹیل ماما‘ کے مطابق خواتین اس قسم کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنی ہیں۔تنظیم نے ’اِن ساوئڈ آو¿ٹ لندن‘ کو بتایا کہ نقاب یا برقع پہننے والی خواتین کے خلاف زیادہ شدید واقعات پیش آئے ہیں۔لندن پولیس کے مطابق یہ وہ جرائم ہیں جو کسی کے مسلمان ہونے یا اسے مسلمان سمجھے جانے کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ ان وارداتوں میں سائبر ب±لیئنگ (انٹرنیٹ دھمکی) سے لے کر جارحانہ حملے شامل ہیں۔’نقاب پوش یا برقع اوڑھنے والی خواتین کے خلاف زیادہ شدید واقعات پیش آئے ہیں‘اس قسم کے جرائم میں سب سے زیادہ اضافے والے علاقوں میں جنوب مغربی لندن کا میرٹن علاقہ شامل ہے جہاں جولائی سنہ 2014 میں آٹھ واقعات درج کیے گئے تھے جبکہ اس کے بعد وہاں 29 وارداتیں درج کی گئیں۔ یہ اضافہ 263 فی صد ہے۔جبکہ سکاٹ لینڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ویسٹ منسٹر میں سب سے زیادہ اسلام مخالف 54 واقعات پیش آئے ہیں۔ٹیل ماما نے بتایا کہ خواتین اس قسم کے جرائم کا تقریباً 60 فی صد شکار ہوتی ہیں۔ٹیل ماما کی ڈائرکٹر فیاض مغل کہتی ہیں: ’ہم نے محسوس کیا کہ گلی محلے کی سطح پر جو مسلم خاتون حجاب یا دوپٹے میں نظر آتی ہے اس کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘اس ادارے کا کہنا ہے کہ جو خواتین اس قسم کے جرائم کا شکار ہوئی ہیں وہ پولیس سے بھی رابطہ کرنے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس سے حالات مزید خراب ہو جاﺅں گے۔برطانیہ کی تقریباً ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 27 لاکھ مسلمان ہیں، جن میں سے 37 فیصد کے لگ بھگ لندن میں رہتے ہیںمنافرت کے متعلق جرائم کی سربراہ میک کرشٹی نے کہا: ’مسلم مردوں کے مقابلے میں مسلم خواتین کو زیادہ نشانہ بنائے جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ان کے لباس واضح طور پر ان کے مسلم ہونے کی دلیل ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور حملہ کرنے والوں کی یہ بزدلانہ سوچ ہوتی ہے کہ بچوں کے ہمراہ خواتین کو نشانہ بنانا مردوں کے مقابلے آسان ہے۔‘تبدیلیِ مذہب کے بعد مسلمان ہونے والی دو بچوں کی ماں جونی کلارک کہتی ہیں کہ اس کی وجہ سے انھیں اپنا گھر تک تبدیل کرنا پڑا ہے۔انھوں نے بتایا: ’مجھے ہر روز گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ ایسے حملوں کا میرے بچوں پر اثر پڑ رہا تھا اور مجھے ان کی حفاظت کی فکر تھی۔ اس لیے میرے پاس گھر تبدیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘برطانیہ کی تقریبا ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 27 لاکھ مسلمان ہیں، جن میں سے 37 فیصد کے لگ بھگ لندن میں رہتے ہیں
لندن میں برقع پہننے والی خواتین کیلئے مشکلات
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
جہانگیری کی جعلی ڈگری
-
عمران خان کو بڑا دھچکا، پی ٹی آئی کی بڑی وکٹ گر گئی
-
سعودی عرب کےاقامہ ہولڈرز کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا
-
حکومت نے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کو بڑا ریلیف دیدیا
-
معروف اداکار نے خودکشی کرلی
-
مجھے بچپن میں کئی سال تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا، معروف اداکار عدیل ہاشمی کا انکشاف
-
خوشخبری !ملازمین کے لیے بھاری الاؤنس منظور
-
سونے کا بھاؤ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تاریخی بلندی پر پہنچ گیا
-
پاکستان میں سوزوکی کمپنی کے سال 2026 کے نئے ماڈلز، تازہ قیمتوں کا اعلان
-
پاکستان تحریک انصاف نے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کردیا
-
سولر صارفین کیلئے نیٹ میٹرنگ پالیسی تبدیل، نیا بلنگ نظام متعارف
-
پنجاب بھر میں عام تعطیل کا نوٹیفکیشن جاری
-
نامناسب اشارے کی ویڈیو وائرل: ہسپتال نے ڈاکٹر کو ملازمت سے برطرف کردیا
-
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر عملدرآمد روک دیا، قبضے واپس















































