اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ن لیگ این اے122اور154کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کے بعد سعد رفیق کے حلقے این اے 125میں ضمنی انتخاب کا انعقاد کرانے یا اس کے برعکس کوئی فیصلہ کریگی۔ایک مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کے ایک سینئر ذریعے نے بتایاکہ جس حلقے سے ٹریبونل نے خواجہ سعد رفیق کی رکنیت ختم کی تھی ، وہاں ضمنی انتخاب کی راہ ہموار کرنے کیلئے حکومت کو انہیں استعفیٰ دینے کی ہدایت کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ سعد رفیق کو ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی مل چکا ہے اور وزیر ریلوے اس سہولت کو دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے اختتام تک استعمال کرینگے۔ ہم این اے 125میں ضمنی انتخاب کے انعقاد کیلئے مجبور نہیں ہیں جبکہ این اے 122اور 154میں ہم نے خود ضمنی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے دیئے جانیوالے شیڈول کے مطابق11اکتوبر کو ان 2 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونگے ،
مزید پڑھئے: پاکستان میں آپریشن کرینگے بھارت نے تیاری کرلی, ٹارگٹ بھی بتا دئیے
سعد رفیق کے حوالے سے عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہم بعد میں کرینگے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوھراں اور لاہور کے حلقوں میں انتخاب کنندگان کی جانب سے ن لیگ کی پالیسیوں پر دیئے جانیوالے ردعمل کی روشنی میں ہی این اے 125کی بابت کوئی فیصلہ کیا جائیگا۔ انہو ں نے بتایاکہ ٹریبونل کے فیصلے کے فوری بعد سے ہی سعد رفیق عدالت عظمیٰ سے ریلیف لینے کے بجائے نیا مینڈیٹ لینا چاہتے تھے ، لیکن ن لیگ اس نتیجے پر پہنچی کہ انہیں قانون کے تحت دستیاب سہولت سے فیضیاب ہونا چاہیے تاکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانیوالی بے ضابطگیوں یا غلطیوں کے خمیازے کے طور پرامیدواروں کی رکنیت ختم کیے جانے کی مثال قائم نہ ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ ن لیگ اس دباﺅ کو ختم کرنا چاہتی تھی جس کا سامنا اسے تحریک انصاف کی جانب سے تھا۔ سعد رفیق کی طرح ایاز صادق نے بھی اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت ٹریبونل کی جانب سے ختم کیے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے نئے انتخاب کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کی رکنیت بھی الیکشن کمیشن کی لغزش کے باعث ختم ہوئی۔ این اے 125، 122،154وہ حلقے تھے ، جن کے ریکارڈ کی جانج پڑتال کا مطالبہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کافی عرصے سے کررہے تھے، ان تینوں حلقوں میں ٹریبونلزکے فیصلے ان کے حق میں ا?ئے۔ تاہم حلقہ این اے 110سیالکوٹ بھی ان چار حلقوں میں شامل ہے،
مزید پڑھئے: مسلم لیگ (ن) نے سعد رفیق کے بارے میں اہم فیصلہ کرلیا
تاہم تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف ٹریبونل میں کی جانیوالی درخواست مسترد کردی گئی تھی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ حالیہ پارلیمانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جس جماعت کے ارکان اسمبلی کی رکنیت الیکشن ٹریبونلز کی جانب سے ختم کی گئی ہو، اس نے اعلیٰ عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کے بجائے نئے انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہو۔ ن لیگ کے اس دلیرانہ فیصلے سے ان کے عوام میں اپنی مقبولیت پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، اس اقدام کا مقصد دباﺅ کا خاتمہ بھی ہے۔