کابل (اقین این آئی )طالبان نے افغانستان بھر میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق پابندی کے حوالے سے وزیر برائے اعلی تعلیم ندا محمد ندیم کی جانب سے دستخط شدہ ایک مراسلہ تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بھیجا گیا ہے۔
مراسلے میں کہا گیاکہ آپ سب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آئندہ اطلاع تک خواتین کی تعلیم معطل کرنے کے مذکورہ حکم پر فوری طور پر عمل درآمد کریں۔اپنے طرز حکمرانی میں نرمی کے وعدے کے باوجود طالبان نے عالمی تنقید کا نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کی زندگیوں کے تمام پہلوں کو پابندیوں میں جکڑ دیا ہے۔اعلی تعلیم پر پابندی ملک بھر میں ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کے یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں بیٹھنے کے تین ماہ سے بھی کم وقت کے بعد لگائی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سی امیدوار مستقبل میں کیریئر کے طور پر تدریس اور طب کا انتخاب کرنے کی خواہشمند ہیں۔طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے یونیورسٹیوں کو لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ الگ کلاسز اور داخلے سمیت نئے قوانین نافذ کرنے پر مجبور کیا گیا، جبکہ خواتین کو صرف خواتین پروفیسرز یا بوڑھے مردوں سے پڑھانے کی اجازت دی گئی۔طالبان تحریک کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ اور ان کے نزدیکی افغان علما کا گروہ جدید تعلیم کے خلاف ہے، خاص کر لڑکیوں اور خواتین کی۔لیکن کابل میں کئی عہدیداروں کو اس پالیسی سے اختلاف ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے حکومت سنبھالنے کے بعد بھی لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے یا انہیں گھر پر رہنے کے لیے کم تنخواہ دی جا رہی ہے۔ وہ کسی مرد رشتے دار کے بغیر سفر بھی نہیں کر سکتیں اور گھر سے باہر انہیں لازمی طور پر پردہ کرنا پڑتا ہے۔