کراچی (این این آئی) عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس(ر) وجیہ الدین نے اپنے بیان کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں نیب قوانین کی ترمیم کا کیس اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے،چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے گمان میں کیا عدالت کسی ایسی اسمبلی کی کارروائی پر غور و خوض نہیں کر رہی جو مناسب انداز میں تشکیل نہ دی گئی ہو،
باالفاظ دیگر کیا ایک تراش شدہ یا غیر مکمل اسمبلی احتساب قوانین کی ترمیم کر سکتی ہے؟ درحقیقت یہ ایک اہم آئینی سقم کی نشاندہی ہوئی ہے،پی ٹی آئی کے ارکان من حیث القوم استعفے جمع کرا چکے ہیں جو پچھلے 8 ماہ سے قبول نہیں ہوئے اور نتیجتاً آئین کے مطابق ضمنی انتخابات منعقد نہ کرائے جا سکے، قومی اسمبلی اپنی موجودہ تعداد کے پیش نظر، نہ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم لا سکتی ہے اور نہ وہاں بظاہر ضروری اکثریت صدر کے محاسبے کے لئے پائی جاتی ہے،یعنی اسمبلی صرف ایسی کارروائیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جو معمولی اکثریت سے انجام دیئے جا سکیں،ایک مزید اہم نقطے کی جسٹس اعجاز الاحسن نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 250 احتساب کے کیس ان افراد سے متعلق تھے، جنہوں نے نیب قوانین کی ترامیم کی خود رہنمائی کی۔ دراصل، ذاتی مفادات کے پیش نظر، پارلیمان کو اس انداز سے اسیر بنا کر قانون سازی کرنا آئین کی شق 227 سے بھی متصادم ہے جس میں پارلیمان کو پابند کیا گیا ہے کہ کوئی قانون اسلامی تشخص کے خلاف نہ بنایا جائے،الا اس کے متنازعہ ترمیم نہ صرف بنیادی حقوق بلکہ خود آئین کے بنیادی ڈھانچے سے بھی مطابقت نہیں رکھتی اور بظاہر سپریم کورٹ اسے رد کرنے کی مجاز معلوم ہوتی ہے۔