جمعہ‬‮ ، 19 دسمبر‬‮ 2025 

وزیراعظم اور وزیراعلی کو حاصل استثنی افواج کوکیسے دیا جاسکتا ہے؟ جسٹس منصور کا استفسار

datetime 14  دسمبر‬‮  2022 |

اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پراحتساب سے استثنیٰ حاصل ہے،

سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کوکیسے دیا جاسکتا ہے؟۔سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے افواج پاکستان کے نیب کی دسترس سے باہر ہونے کے سوالات پر دلائل میں کہا کہ فوج افسران کو نیب استثنیٰ درست ہے، فوجی افسران سے ریٹائرمنٹ کے بعد احتساب ہو سکتا ہے۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ہے؟سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر معمور ہے، انہیں نیب قانون میں استثنی کیوں نہیں دیا گیا؟ کیا فوجی افسر کی کرپشن کے احتساب کیلئے 40 سال ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا ہو گا؟انہوں نے استفسار کیا کہ آرمی افسران اگر دوران سروس کسی وفاقی یا صوبائی ادارے میں تعینات ہو تو کیا اس کا احتساب ہو سکتا ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، نیب قانون نہیں، آرمی افسران کو نیشنل سکیورٹی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے، آرمی افسران کمیشن حاصل کرنے کے بعد صرف 18 سال سروس میں رہتے ہیں، افواج پاکستان کا اندرونی کنٹرول، منیجمنٹ اور احتساب کا طریقہ کار ہے اور ان کی سزائیں بھی عام سزاؤں سے سخت ہوتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا،

آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دی جا سکتی ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ آرمی افسران سروس میں جو بھی کریں اس کا احتساب ریٹائرمنٹ کے بعد ہو سکتا ہے، عدالت مانے یا نا مانے آرمی افسران کو تحفظ دینا ہی پارلیمنٹ کی منطق ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے استفسارپرعمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان استعفے دے چکے ہیں تاہم سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر تمام استعفے منظور نہیں کر رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟

جس رکن کو مسئلہ ہوگا فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سپیکر کو چار دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے،

موجودہ اسمبلی نامکمل ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ یہ پی ٹی آئی کا جانبدار نکتہ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے، زبانی باتیں نا کریں، اسمبلی نہیں پسند تو نشستیں چھوڑدیں، استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی کی درخواستوں سے متعلق کئی درخواستیں زیر التوا ہیں، سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، امر بالمعروف و ونہی عن المنکر اسلام کے بنیادی اصول ہیں، بڑی سیاسی جماعت باہر ہو تو اسمبلی فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے۔حکومت کے وکیل مخدوم علی خان جنوری کے دوسرے ہفتے میں دلائل کا آغاز کریں گے۔



کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…