دمشق(این این آئی)طویل خانہ جنگی، توانائی بحران اور مسلسل امریکی پابندیوں کے باعث بھوکوں مرنے والے شامی عوام کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ شامی پاونڈ کا امریکی ڈالر کے مقابلے میں انتہائی نچلی سطح تک گر جانے سے ہو گیا ۔کرنسی تبادلے کی یہ سطح 6000 شامی پاونڈز کے مقابلے میں ایک امریکی ڈالر ہو گئی۔ بھوک اور ننگ میں شام کے عوام کی زندگیوں میں
ایک بری مگر طویل صبح کا باعث بن گئے ۔بدترین معاشی بحران کے باعث شامی پاونڈ مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہے اور حکومت کے پاس اسے اوپر لانے کی بظاہر کوئی سبیل موجود نہیں ہے۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی اور کفایت میں اضافے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ لیکن یہ کفایت کی پالیسی عام شہری کو زیادہ متاثر کرنے والی ہے۔ جسے حکومتیں عام طور پر مشکل فیصلوں کا نام دیتی ہیں۔شامی حکومت میں اپنی کفایت کی پالیسی کے تحت سراکری شعبے میں ہفتے کے سات دن کام کرنے کے بجائے کم دنوں کی مدت مقرر کی ہے تاکہ ادائیگیوں میں کمی کی صورت پیدا کی جاسکے۔شام کی معاشی بد حالی کی وجہ سے 90 فیصد آبادی غربت کی انتہائی سطح کے مقابلے میں بے بس نظر آتی ہے جبکہ شامی حکومت نے غربت سے مرنے والے عوام کے لیے کام کے ہفت میں بھی مکمی کر دی ہے تاکہ حکومتی اخرجات میں کمی ہو سکے اور توانائی بحران میں مزید شدت نہ آ سکے۔واضح رہے شام کی حکومت نے سرکاری طور پر امریکی ڈالے ساتھ اپنی کرنسی کی شرح تبادلہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 3015 شامی پاونڈ طے کر رکھی ہے ۔ مگر اوپن مارکیٹ میں یہ شرح اس سے بھی 99 فیصد زیادہ ہو کر 6000 شامی پاونڈ ہو چکی ہے۔شامی حکومت نے معاشی حالت کے نہ سنبھلنے کی وجہ سے بدھ کے روز سے اپنے ہاں ہر طرح کے کھیلوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اب عوام کا کے لیے اور نوجوانوں کے لیے خوراک کے لیے مارا ماری کرنا باہمی لڑائی جھگڑے رہ گئے ہیں۔شام کی طویل خانہ جنگی سے قبل شامی پاونڈ کی امریکی ڈالر کے ساتھ شرح تبادلہ 47 پاونڈ کے بدلے ایک امریکی ڈالر تھی اور اب یہ 6000 شامی پاونڈ ہو چکی ہے۔
اس ماحول میں ایک عام شامی شہری کی تنخواہ 130000 شام پاونڈ رہ گئی ہے۔ توانائی اور ایندھن کے مسائل بھی دگر گوں ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ان میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ
شام کی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ آبادی ماری جا چکی اور کء ملین شہری ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں منتقل یا بے گھر ہو چکے ہیں۔ خانہ جنگی کے طویل عرصے میں شام میں انفراسٹرکچر کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے۔