ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

طاقتور شخص کو پیغام ہے ہم طاقتور کا رعب تسلیم نہیں کرتے، مولانا فضل الرحمان

datetime 30  جولائی  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا ہے کہ جتنا طاقتور سے طاقتور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا،دامن پر کالا داغ لگانے

کی کوشش کی تو فائل تہمارے منہ پر ماریں گے،عمران خان کو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے نکالا نہیں لایا گیا تھا،ہم تہماری اصلیت کو جانتے ہیں، تمہارے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں، تمہارے پاس اسرائیل سے پیسہ آیا ہے،اس کو اقتدار سے نکالنا کافی نہیں، نام و نشان بھی مٹانا ہے،ہتھیار نہیں ڈالنے،میدان جنگ میں رہنا ہے، سیاسی اور آئینی جنگ لڑنی ہے،ہاتھ جوڑ کر درخواستیں دیکر عدالتوں سے منت سماجت کرکے آپ یہ حق حاصل نہیں کرسکیں گے، آپ عوام کے نمائندے ہیں، عوام کو لے کر نکلیں اور گریبان میں ہاتھ ڈالیں کہ اختیارات سلب کرنے والے یہ کون ہوتے ہیں۔پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے آبائی تہذیبی سلسلے کو ختم کر دیا گیا ہے، بزرگوں سے نوجوانوں کا تعلق ختم کر دیا گیا ہے، ماں، باپ، برزگوں کی عزت ختم ہو جائے اور کہا جائے کہ ہماری مرضی، یہ اپنی مرضی والی مخلوق نے معاشرے کو تباہ کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ پتہ چلا کہ کس کے خلاف سازش ہوئی ہے، عمران خان کہتا ہے کہ بیرونی سازش کے تحت مجھے اقتدار سے نکالا گیا، آپ کو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے نہیں نکالا گیا، بین الاقوامی طاقت کے تحت آپ کو لایا گیا تھا۔انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ہم تہماری اصلیت کو جانتے ہیں، تمہارے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ میرے ملک کی اشرافیہ جن کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو،

ان کے گھروں کے اندر اس کو سپورٹ ملی ہے، وہ بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے معمولی جنگ نہیں لڑی، اس کو اقتدار سے نکالنا کافی نہیں ہے، ان کے نام و نشان اور قدموں کے نشانات کو بھی مٹانا ہے لہٰذا ہتھیار نہیں ڈالنے بلکہ میدان جنگ میں رہنا ہے، سیاسی اور آئینی جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں علمائے کرام سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی طاقت ہمارے نوجوانوں کے اخلاق کو

تباہ کرتی ہے، اپنے بزرگوں سے نسبت کو ختم کرتی ہے تو سب سے پہلا فرض علما کا بنتا ہے کہ وہ گلی، گلی، کوچے، کوچے، مسجد، مسجد اور مدراس میں جا کر قوم کو اسلام کی راہ بتائیں۔انہوں نے کہاکہ اگر ان کو یہ خیال ہے کہ میرے پاس بھی مولوی ہیں تو اس طرح کے مولوی حضرت فرنگی کے ساتھ بھی ہوتے تھے، ان سے مرعوب نہ ہونا، یہ ہمارے علمائے کرام کی چھٹی انگلی ہے جسے ہم نے کاٹ کر پھینک دیا ہے۔مولانا فضل الرحمن

نے کہا کہ عدلیہ ایک ادارہ ہے، عدلیہ کسی بھی ریاست کے لیے ناگزیر ادارہ ہوا کرتا ہے، اور اس کا احترام، عزت اور توقیر کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن اگر ایک شخص اپنی ذات میں جج کے عہدے پر فائز ہو کر اپنے رویے سے متنازع بن جاتا ہے اور وہ اپنے اوپر فرض کر لیتا ہے کہ میں نے ایک فریق کو تحفظ دینا ہے، اور اس کے لیے میں نے عدلیہ کو استعمال کرنا ہے، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے بڑے دوررس نتائج ہوا کرتے ہیں۔انہوں نے

کہا کہ آپ فوری نتائج کو نہ دیکھا کریں، آپ نے فوری طور پر ایک فریق کو ریلیف مہیا کر دی لیکن دوررس نتائج یہ ہوتے ہیں کہ اسی سے ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں، کیا یہاں پر منظم طریقے سے ادارے کے اندر بیٹھے لوگوں نے جنہیں میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں، نے ہمارے خلاف جھوٹے کیسزز نہیں بنائے یا بنانے کی کوشش نہیں کی؟جے یو آئی کے امیر نے کہا کہ ہمارے خلاف کوئی فائل آئے گی تو ہمیں اپنے کردار کا پتہ ہے، ہمیں اپنے دامن کا

پتہ ہے کہ وہ کتنا اجلا اور صاف ہے، اگر تم نے بدنیتی کے ساتھ ہمارے دامن پر کالا داغ لگانے کی کوشش کی تو فائل ہم تہمارے منہ پر مار دیں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جن کے اباؤ اجداد کی پوری تاریخ غلامی سے بھری ہوئی ہے وہ لوگ آج نئی نسل کو آزادی کا درس دے رہے ہیں، اس کو پتہ ہے کہ آزادی کس چیز کو کہتے ہیں، آپ برطانیہ جائیں اور ایک پاکستانی نژاد مسلمان کے مقابلے میں کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل کے امیدوار کے لیے

ووٹ مانگیں، تب بھی آپ آزادی کی بات کریں گے۔انہوں نے کہاکہ فارن فنڈنگ کیس میں تمہارے پاس اسرائیل سے پیسہ آیا ہے، تمہارے پاس بھارت سے پیسہ آیا ہے جبکہ تمہارے گھر کا کرایہ 9 سال تک امریکی سفارت خانہ دیتا رہا ہے، پھر بھی تم آزادی کی بات کرتے ہو۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جس کی کابینہ کے سارے مشیر، کچھ وزیر اور ان کے گورنر یورپ کے شہری ہوں، وہ ہمیں آزادی کا درس دیتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ آزادی کس کو

کہتے ہیں، انہوں نے کہاکہ آزادی کے لیے تیرے آقاؤں کے ساتھ میرے اکابرین نے 100 سال سے زیادہ کا جہاد لڑا ہے، آزادی کا درس میرے پاس ہے، غلامی کا درس تیرے پاس ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے میرے ابا و اجداد کا کردار بھی معلوم ہے اور تیرے ابا و اجداد کا بھی، تمہیں اپنے ابا و اجداد کا کردار مبارک ہو، مجھے اپنے ابا و اجداد کا کردار مبارک، ہمارے کردار پر انگلیاں اٹھاؤ گے، ہمیں معاشرے میں ذلیل کرنے کی کوشش کرو گے اور

پھر توقع رکھو گے کہ ہم تمہاری خوشامد کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جتنا طاقت ور سے طاقت ور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد میں تمام جماعتیں کیوں اکٹھا ہیں، جن میں مذہبی، روشن خیال، ملکی سیاست کرنے والے اور قوم پرست سب شامل ہیں، یہ لوگ اس لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ ملک کو بچانا چاہتے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ ایک

ملک دشمن عنصر پاکستان میں بیرونی فنڈنگ کے ذریعے داخل ہوچکا ہے، اور وہ ملک کو کھوکھلا کر رہا ہے، اداروں کے لوگ بھی اس سے وابستہ ہیں جب تک وہ ادارے کے اندر موجود ہیں تب تک ان کا پتہ نہیں چلتا، جب وہ اپنا لباس اتارتے ہیں، پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کون لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں، کن کے گھروں میں آنٹیاں رو رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پوری قوم سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اب جو ضمنی

انتخابات آئیں گے اس میں ایک پارٹی کی طرح لڑیں گے، کوئی فرق نہیں کرے، ملک ہے تو ہم سب ہیں، آج ہم نے نظریاتی طور پر ملک کو بچانا ہے، اس کے جغرافیے کو بچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نے کہا تھا کہ پاکستان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا، ملک کا آئین ہے اس کا معنی نہیں ہے، اگر یہ تہذیب چل رہی ہے، اگر یہ نظریہ فروغ پا رہا ہے تو پھر ہم پاکستان کی نظریاتی شناخت ختم کر دیں گے، ہمیں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو زندہ رکھنا ہے، آئین کو زندہ رکھنا ہے، آئین کو زندہ رکھیں گے تو ادارے زندہ رہیں گے،

اگر ادارے آئین کو نہیں مانتے تو پھر کیا کریں گے۔جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ آئین بلدیاتی اداروں کی بات کرتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں جب وہ شکست کھا گئے اور مجموعی طور پر حکومتی جماعت اقلیت میں ہے تو قانون بنایا جا رہا ہے کہ ان کو کوئی اختیار نہیں لوگوں کی خدمت کرنے کا، ان کے سارے فنڈ بند کردو۔انہوں نے کہا کہ ہاتھ جوڑ کر درخواستیں دے کر، عدالتوں سے منت سماجت کرکے آپ یہ حق حاصل نہیں کرسکیں گے، آپ عوام کے نمائندے ہیں، عوام کو لے کر نکلیں اور گریبان میں ہاتھ ڈالیں کہ اختیارات سلب کرنے والے یہ کون ہوتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے پگڑیاں اس لیے نہیں پہنیں کہ سر جھکا کر چلنا ہے، ہم نے پگڑیاں سر اٹھا کر چلنے کیلئے پہنی ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…