اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )ٹیک کمپنی میں ملازمت کرنے والی ایک خاتون کو ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے کیونکہ ہم سب کو مہینے کے آخر میں اپنے بینک اکاؤنٹ میں کچھ اضافی رقم پسند ہوتی ہے۔ایک اچھا اضافہ ایک ملازم کو خوش کر سکتا ہے
اور یہاں تک کہ اس کی کام کی کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے لیکن یہ آپ کی اپنی چیز ہے جس کی تشہیر کی ضرورت نہیں ہے۔ہو سکتا ہے کہ آپ کے HR نے آپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی تنخواہ کی اسناد ظاہر نہ کرنے کے بارے میں بتایا ہو اور ملازمت میں نئے شامل ہونے والے افراد کو اس طرح کے مشورے دیے جاتے ہیں۔ڈینور سے تعلق رکھنے والی لیکسی لارسن نے اپنے ٹک ٹاک پر متعدد ویڈیوز پوسٹ کی ہیں تاکہ یہ بتانے کے لیے کہ وہ ٹیک انڈسٹری میں اپنی نئی ملازمت میں 70 ہزار ڈالر کی تنخواہ سے 90 ہزار ڈالر کی تنخواہ تک جانے میں کیسے کامیاب ہوئی۔اگرچہ کلپس نے لاکھوں آراء حاصل کیں لیکن خاتون کے باس کو یہ حرکت پسند نہیں آئی کہ وہ اپنی تنخواہ کی تفصیلات عوامی پلیٹ فارم پر شیئر کر رہی تھیں۔ٹیک ورکر نے پوسٹ کیا کہ اسے میٹنگ کے لیے بلایا گیا اور بعد میں اسے ٹک ٹاک ویڈیوز کی وجہ سے اُس کے عہدے سے نکال دیا گیا۔خاتون نے وضاحت کی ہے کہ کچھ ہفتے پہلے میں نے یہ بتانا شروع کیا کہ مجھے ٹیک انڈسٹری میں کیسے ملازمت ملی لیکن میں اب اس کمپنی میں ملازمت نہیں کرتی کیونکہ انہوں نے مجھے نکال دیا ہے۔لیکسی نے کہا کہ میٹنگ ان ویڈیوز پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے بلائی گئی تھی جو اس نے مقبول ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر پوسٹ کی تھیں۔اگرچہ خاتون نے تمام ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے
لیکن یہ اس کی ملازمت بچانے کے لیے کافی نہیں تھا اور میٹنگ میں بتایا گیا تھا کہ ٹک ٹاک پر اس کی ویڈیوز نے ’سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش‘ پیدا کر دی ہے۔ٹیک ورکر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کمپنی نے اسے بتایا کہ وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے
حالانکہ اس نے کوئی اصول نہیں توڑا تھا۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ لیکسی نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، اس کی تنخواہ پر بحث کرنے کا حق نیشنل لیبر ریلیشن ایکٹ (NRLA) کے ذریعے محفوظ ہے، جو 1935ء سے ایک قانون ہے۔