اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شہباز شریف کی حکومت سمجھتی ہے کہ نیب کی جانب سے سینکڑوں ارب روپے کی ریکوری اور ادارے کی جانب سے 70؍ فیصد افراد کو سزائیں دلوانے کی باتیں کھوکھلی اور محض دھوکا ہیں۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق ایک اہم سرکاری عہدیدار نے نیب کی جانب سے کی جانے والی ریکوریوں اور سابق چیئرمین نیب کے حوالے
سے کہا کہ حکومت نے اس معاملے کی جانچ کی ہے اور نیب کی سالانہ رپورٹس کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریکوریوں کے اعداد و شمار کو تخلیقی انداز کے ساتھ دو باتوں کے ساتھ جوڑ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا: ۱) بینک ریکوریاں، ۲) الاٹیوں کو پلاٹس کا قبضہ دلوانا۔ پہلے معاملے میں تمام ریکوریاں بینکاری کے بہتر کیے گئے قوانین، بینکنگ کورٹس کی جانب سے مقدمات جلد نمٹنے اور مثبت معاشی حالات کی وجہ ممکن ہو پائیں۔سرکاری ذریعے کے مطابق، اس صورتحال کے تناظر میں دیکھیں تو یہ معاملہ عوام کو دھوکا دینے والی بات ہے جو بیورو کے اپنے معیارات کے مطابق ہی دھوکا دہی میں آتا ہے۔ دوسرے معاملے میں دیکھیں تو تاخیر کا شکار تمام پروجیکٹس میں پلاٹس کی ریکوری موجودہ مارکیٹ پرائس کے مطابق عمل میں لائی گئی۔سرکاری ذریعے نے کہا کہ نیب کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا، بیورو کی براہِ راست ریکوریوں سے ادارے کی جانب سے عمارتوں اور ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ کی گئی رقم بھی پوری نہیں ہوتی۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ ایک اور بڑی بات جو کہی جاتی ہے کہ کنوکشن ریٹ 70؍ فیصد رہا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں بھی حقیقت مختلف ہے۔ نیب اعداد و شمار کو چمکا کر دکھانے کیلئے دو ترکیبیں اختیار کرتا ہے: ۱) ادارہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے بری کیے گئے افراد کے اعداد و شمار کو ایڈجسٹ نہیں کرتا، ۲) پلی بارگین کو بھی سزائیں دلوانے میں شمار کیا جاتا ہے۔
کہاتا ہے کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح تاثر ملے گا کہ ادارے اور اس کے قانون کا ڈھانچہ اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ اس میں پلی بارگین یا پھر اعتراف جرم پر زیادہ دھیان دیا گیا ہے۔اس کا متبادل طویل عرصہ تک جیل میں ڈالنا ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملزم کی ذہنی اور معاشی صورتحال بگڑ جاتی ہے اور کیس عدالتوں میں چلتا رہتا ہے۔
ذریعے نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 90؍ دن کا جسمانی ریمانڈ اور ضمانت کا اطلاق نہ ہونا (جنہیں اب ختم کیا گیا ہے) ایسے نکات تھے جو افراد کو دبائو میں لا کر ان سے بیانات حاصل کرنے کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
ذریعے نے کہا کہ ’’وائٹ کالر کرائم کی منفرد نوعیت‘‘ کی وجہ سے فوجداری مقدمہ بازی میں بنیادی معیارات پر پورا اترنے میں ناکامی پر نیب اکثر و بیشتر عدالتوں سے رعایت حاصل کرتا رہا ہے، جمہوری ممالک میں یہ شاید واحد ادارہ ہوگا جو جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے والے ملزمان کیخلاف اس طرح کی چالبازی استعمال کرتا رہا ہے۔
لہٰذا، کسی بھی عقلمند شخص، بالخصوص اگر وہ معصوم ہے، کیلئے پلی بارگین ہی بہتر طریقہ رہ جاتا ہے خصوصاً اس وقت جب اسے یہ بتایا جائے کہ اس کا متبادل کم از کم ایک سال جیل، سماجی سطح پر بدنامی اور قانونی فیس کی مد میں لاکھوں روپے کے اخراجات ہو سکتے ہیں۔
ذریعے نے واضح کیا کہ جن لوگوں کو نیب کی جیل میں رہنے کا تجربہ ہے وہ یہ بتاتے ہیں کہ تحقیقات کا اصل دورانیہ کم سے کم تھا، اور تمام تر توجہ ملزم کو ٹارچر کا نشانہ بنانے اور اس کی اور اس کے اہل خانہ کی تضحیک کرنے پر مرکوز رہتا تھا تاکہ وہ پلی بارگین پر آ سکیں۔2018
ء میں جو لوگ گرفتار ہوئے تھے وہ اپنی بھیانک داستان بتاتے ہیں کہ کس طرح موجودہ ڈی جی نیب لاہور نے حکم دیا کہ حوالات میں موجود واش روم کو توڑ دیا جائے تاکہ جب بھی کسی ملزم کو حاجت محسوس ہو تو وہ اکڑوں بیٹھ کر درد اور کرب میں خود کو یہاں سے وہاں گھیسٹتا رہے۔
اُس وقت کے کئی افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ دورانِ حراست انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا پھر کسی اور پر تشدد ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔اس صورتحال کا تقابل زبردست محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ٹھوس شواہد سے کریں، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ نیب نے ہمیشہ جارحانہ انداز سے حراست کے حوالے سے اپنے اختیارات کا دفاع کیوں کیا ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ نیب قانون میں کی جانے والی نئی ترامیم گرفتاری کے اختیارات کا ڈھانچہ طے کرنے کیلئے کی گئی ہیں تاکہ ان میں عدالتی دانش شامل کی جا سکے جس سے نیب کی جانب سے اختیارات کے اس غلط استعمال سے بچا جا سکے گا جس کا نیب پر الزام لگتا رہا ہے۔
کسی بھی شفاف فوجداری نظامِ انصاف کی طرح، پاکستان کے ضابطہ فوجداری میں پراسیکوشن ایجنسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا مقدمہ شواہد کی بنیاد پر ثابت کرے تاکہ ملزمان الزامات کا دفاع کر سکے۔لیکن نیب نے مقدمات کو انجام تک پہنچانے کی خاطر لا محدود وقت کا سہارا لیا، ہمیشہ سے ہی ضمنی ریفرنسز دائر کیے جن کا مقصد پراسیکوشن کے مقدمے میں چھپی کمزوریوں کو چھپانا ہوتا تھا۔
ایک اور ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت دیکھیں تو کرپشن کو ثابت کرنے کیلئے تحقیقاتی ایجنسی کو فائدہ اٹھانے والے شخص سے با اختیار شخص کو مالی فوائد کے منتقل ہونے کے شواہد پیش کرنا ہوتے ہیں۔کسی مالی فائدے کے بغیر ہی کسی شخص پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرنا اور پھر اپنے بے قصور ہونے کو ثابت کرنے کا وزن بھی اس پر ہی رکھنا نیب کی عظیم طاقت رہا ہے۔
نئی ترامیم کے ذریعے ’’مالی فائدے کے بغیر اختیارات کے ناجائز استعمال اور ثابت ہونے تک قصور وار‘‘ کا نیب کا ماڈل ختم کر دیا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ نئی ترامیم کے ذریعے یہ بات بھی قانون میں شامل کی گئی ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ نیب نے مذموم مقاصد کے تحت کسی شخص کیخلاف کارروائی کی ہے تو نیب حکام کو سزائیں ملیں گی۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ نیب کیخلاف الزامات کو دیکھتے ہوئے، یہ ترامیم نیب کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کیخلاف ایک مزاحمت ثابت ہونگی لیکن ساتھ ہی نیب افسران کو بھی لٹکتی تلوار سے تحفظ ملے گا کہ ان کیخلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی کہ جب ملزم بری ہو جائے اور عدالت کہے کہ نیب نے غلط کام کیا۔حکومت کے تاثر کے حوالے سے جب نیب کے ترجمان سے موقف لینے کیلئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نیب قانون کا نیا ترمیمی حصہ اس نمائندے کے ساتھ شیئر کیا جس میں لکھا ہے کہ نیب حکام کو بیانات جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے۔