کراچی(این این آئی)اعظم نذیر تارڑ کی بطور وفاقی وزیر قانون تعیناتی پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں فاصلے بڑھنے لگے مصطفی نواز کھوکھر، سردارلطیف کھوسہ، اعتزاز احسن سمیت متعدد ارکین قومی و سندھ اسمبلی نے بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزد 2 پولیس افسران کے کیس کی پیروری کرنے والے ن لیگی رہنما کو اہم وزارت دیے جانے پر قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا پارٹی میں بغاوت کے
خدشے کے پیش ِ نظر بلاول بھٹو زرداری کو وزارتِ خارجہ کا حلف اٹھانے میں شدید دبا کا سامنا۔ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی خواہش پر وفاقی کابینہ میں شامل کیے جانے والے اعظم نذیر تارڑ کی بطور وزیر تعیناتی پر پارٹی سے سخت نالاں ہیں اس ضمن میں ان کی جانب سے پارٹی قیادت کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزذ سابق سی پی او سعود عزیز اور اور سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد حیدر جو بے نظیر بھٹو کے قتل میں غفلت کے مرتکب ٹھہرائے گئے تھے کے کیس کی پیروری کرنے والے کو وزیرقانون کا قلمدان سونپنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انسداد دہشتگردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت کی جانب سے دونوں پولیس افسران کو 31 اگست 2017 میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 119 اور 201 کے تحت مجموعی طور پر 17 سال قید اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جس پر دونوں پولیس افسران کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانتیں منظور ہو گئی تھیں مذکورہ افسران پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی جگہ کو شواہد اکھٹے کیے بغیر دھلوانے کا الزام ہے۔پیپلز پارٹی کے متعدد رہنماں نے بلاول بھٹو زرداری کو تمام صورتحال سے آ گاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا استعفی پیش کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے جنہیں پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے منانے کی کوششیں جا ری ہے
تمام تر صورتحال کے باعث بلاول بھٹو کی جانب سے کابینہ میں شمولیت سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے جبکہ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا وزیر مملکت برائے قانون و انصاف کا قلمدان نہ سنبھالنا بھی اسی بات کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں بھی بلاول بھٹو نے تمام تر صورتحال سے انہیں آ گاہ کر دیا ہے جس کے تحت جلد وفاقی وزیر قانون کی تبدیلی متوقع ہے۔
واضح رہے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کیخلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد تحریک کی ناکامی کے بعد پی ڈی ایم کی جانب سے سینیٹ میں اعظم نذیر تارڑ کو بطور اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی تھی جس کے تحت پیپلز پارٹی نے اپنا علیحدہ اپوزیشن لیڈر نامزد کیا تھا 30 اپوزیشن ارکان جن میں اے این پی،جماعت اسلامی، فاٹا کے دو ممبران سمیت دلاور خان گروپ کے سینیٹرز شامل تھے کی جانب سے
پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی گئی ہے جس کے تحت وہ سینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر منتخب ہو گئے تھے جب انکے مد ِ مقابل امیدوار اعظم نذیر تارڑ صرف 21 ووٹ حاصل کر سکے تھے نیز جمعیت علمائے اسلام کے پانچ سینیٹرز کی جانب سے ان کی حمایت سے متعلق درخواست پر دستخط ہی نہیں کیے گئے تھے اس بابت پر ماضی میں دونوں فریقین میں سخت اختلافات دیکھنے میں آئے ہیں۔